Tadabbur-e-Quran - Al-Waaqia : 63
اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَؕ
اَفَرَءَيْتُمْ : کیا بھلا دیکھا تم نے۔ غور کیا تم نے مَّا تَحْرُثُوْنَ : جو بیج تم بوتے ہو
کیا تم نے غور کیا ہے اس چیز پر جو تم بولتے ہو ؟
(افریتم ما تحرثون انتم تزوعونہ ام نحن الزعون) (63، 64) (وسائل ربوبیت سے جزاء پر استدلال)۔ انسان کی خلقت کے بعد یہ ان وسائل ربوبیت کی طرف توجہ دلائی جو رب کریم نے اس کی پرورش کے لیے مہیا فرمائے ہیں اور جن کے مہیا ہونے میں نہ انسان کی تدبیر کو کوئی دخل ہے نہ اس کے کسی استحقاق کو یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بلا استحقاق جو نعمتیں بخشی ہیں ان کو قرآن نے مختلف اسلوبوں سے جگہ جگہ جزاء و سزا کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ ان کا بلا کسی حق کے عطا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ایک دن ہر نعمت کے باب میں لوگوں سے پرسش ہونی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی جگہ جگہ واضح فرمائی ہے کہ یہ نعمتیں اکثروں کے لیے استکبار کا سب بن گئیں۔ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو انہوں نے اپنی تدبیر و قابلیت کا کرشمہ اور اپنا حق سمجھا اور اس غرور میں آخرت سے آنکھیں بند کرلیں اور اگر کسی نے ان کو آنکھیں کھولنے کی دعوت دی تو اس کو وہی جواب دیا جو اوپر مترفین کی زبان سے نقل ہوا ہے۔ فرمایا کہ زمین میں جو کچھ تم بولتے ہو، کبھی اس پر بھی غور کیا ؟ کیا اپنے بوئے ہوئے بیجوں کو تم پروان چڑھاتے ہو یا ان کو پروان چڑھانے والے ہم ہیں ؟ جس طرح اولاد کی پیدائش میں تمہارا حصہ صرف اتنا ہی ہے کہ تم ہل چلا کر کچھ دانے زمین میں بکھیر دیتے ہو، اس کے بعد کے سارے مراحل تم دیکھتے ہو کہ براہ راست قدرت کے اہتمام میں طے ہوتے ہیں۔ اسی نے زمین میں یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ اپنی آغوش میں دانے کی پرورش کرے۔ اسی نے بیج میں یہ صلاحیت و دیعت فرمائی کہ وہ زمین کی حرارت اور رطوبت سے فیض یاب ہو کر اپنے اندر سے سوئیاں نکالے اور ان نازک سوئیوں کے اندر یہ حوصلہ ودیعت فرمایا کہ وہ دھرتی کا سینہ چیر کر باہر نکلیں اور کھلی فضاء میں پروان چڑھیں۔ پھر اللہ ہی ان نازک سوئیوں کو ڈنٹھلوں کا سہارا مہیا کرتا ہے۔ ان کے ندر برگ و بار پیدا کرتا ہے، خوشے نکالتا ہے۔ پھول اور پھل پیدا کرتا ہے، پھر وہ پک کر کسان کی جھولی بھرتے ہیں، غور کرو کہ ان میں سے کون سا کام ہے جو تمہارے کیے ہوتا ہے یا جس کو تم انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہو۔
Top