Tadabbur-e-Quran - Al-Waaqia : 34
وَّ فُرُشٍ مَّرْفُوْعَةٍؕ
وَّفُرُشٍ : اور نشست گاہیں مَّرْفُوْعَةٍ : اونچی
اور اونچے بستر ہوں گے
(فرش مرفوعہ انا انشانھن انشا فجعلنھن ابکاراہ عربا اترابا) (34۔ 37) یہ ان کی نشست گاہوں اور ان کی بیویوں کا ذکر ہے۔ اوپر سابقین مقربین کے ذکر میں یاد ہوگا، ترتیب بیان اس سے مختلف ہے۔ اس فرق کے بعض نفسیاتی وجود ہیں لیکن اس طرح کی تفصیلات میں یہاں جانے کا موقع نہیں ہے۔ فرمایا کہ ان کے بیٹھنے کے لیے اونچے بچھونے ہوں گے اور ان کے لیے بیویاں ہوں گی جن کو ہم نے ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہوگا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیویوں کے لیے ضمیر بغیر کسی مرجع کے آگئی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ضمیر کے لیے لفظوں میں کوئی مرجع نہیں ہے لیکن قرینہ نہایت واضح موجود ہے عربی میں مثل ہے کہ (الشی بالشی یذکر) بات سے بات یاد آتی ہے۔ یہاں بچھونوں کے ذکر کے بعد بیویوں کا ذکر اسی نوع کی چیز ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات میں تختوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ بیویوں کا ذکر آیا ہے۔ اسی تعلق کی بناء پر یہاں ان کا ذکر محض ضمیر سے کردیا جس میں ایجاز کی بلاغت بھی ہے اور خواتین کے ذکر میں پردہ داری کے لحاظ کی تعلیم بھی، یہ بات کہ تختوں اور بچھونوں کے ساتھ قرآن میں بیویوں کا ذکر آیا ہے محتاج حوالہ نہیں ہے۔ لیکن محض اطمینان خاطر کے لیے ہم بعض شواہد نقل کیے دیتے ہیں۔ سورة طور میں ہے۔ (متئین علی سرر مصفونہ وزوجنھم بحورعین) (الطور : 52، 20) (وہ ٹیک لگائے ہوں گے صف پہ صف بچھے ہوئے تختوں پر اور ہم ان کی شادیاں کردیں گے غزال چشم حوروں کے ساتھ۔) اسی طرح سورة یٰسین میں ہے (ھم وازواجھم فی ظلل علی الارائک متکئون) (یٰسین : 36 : 56) (وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں تختوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے۔) (انا انشا نھن انشاء) ان حوروں کی تعریف میں فرمایا کہ ہم نے انکو ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہے اس وجہ سے ان کی خصوصیات وصفات اس دنیا کی عورتوں کی خصوصیات وصفات سے بالکل مختلف ہوں گی۔ اس دنیا کی عورت کا کنوارہ پن اور اس کی جوانی و دل ربائی ہر چیز وقتی اور فانی ہے۔ اگر ماندشیے ماند شب دیگر نمی ماند لیکن حوران جنت کو اللہ تعالیٰ نے اس سے بالکل مختلف ساخت پر نشوونما بخشی ہے اس وجہ سے ان کے کنوار پن اور حسن و جوانی خزاں نہیں آئے گی۔ (فجعلنھن ابکارا، عربا اقرابا)یہاں اس خاص اٹھان کی وضاحت کے لیے ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کنواریاں رہیں گی۔ ان کے مرد جب بھی ان سے ملاقات کریں گے ان کی ملاقات اس اعتبار سے گویا پہلی ملاقات ہوگی۔ ’ عرب ‘ جمع ہے ’ عروب ‘ کی۔ اس کی معنی ہیں محبوب اور دل ربا بیوی۔ ظاہر ہے کہ جب انکے حسن، جوانی اور کنوار پن کسی چیز میں بھی فرق نہیں آئے گا تو شوہروں کی نظر سے ان کو گرنے کی بھی کوئی وہ نہیں ہوگی بلکہ وہ گل تر کی طرح ہمیشہ مطلوب و محبوب نبی رہیں گی۔ (اتراب) جمع ہے (ترب) کی یہ لفظ ہم سن وہم عمر کے معنی میں آتا ہے لیکن عربیت کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس کا غالب استعمال عورتوں کے لیے ہے اس وجہ سے میرے نزدیک یہاں یہ ہم جو لیوں کے معنی میں ہے۔ سورة نبا میں کو اعب اترابا (کنواری ہم جولیاں) کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل جنت کو جنتی حوریں بھی ملیں گی سب ہم جولیاں اور ہم سنیں ہوگی اس وجہ سے نہ ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کا سوال پیدا ہوگا اور نہ ان حوروں کے اندر رشک و رقابت کے جذبات ابھریں گے۔ جس طرح وہ ہمیشہ جوان اور کنواریاں رہیں گی اسی طرح ان کے شوہر بھی جوان رعنا رہیں گی۔
Top