Tadabbur-e-Quran - Al-Waaqia : 15
عَلٰى سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍۙ
عَلٰي سُرُرٍ : اوپر تختوں کے ہوں گے مَّوْضُوْنَةٍ : سونے کی تاروں سے بنے ہوئے۔ بنے ہوئے
جڑا، تختوں پر ،
(مقربین کی جنت کی تمثیل)۔ یہ ان مقربین کی جنت کی تمثیل ہے۔ پہلے ان کی نشست گاہ اور ان کے انداز نشست کی تصویر کھینچی ہے کہ وہ جڑائو اور زر نگار تختوں پر گائو تکیوں سے ٹیک لگائے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ (موضونۃ) کے معنی بعض لوگوں نے دوسرے بھی لیے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کا صحیح مفہوم وہی ہے جو ہم اپنی زبان میں لفظ جڑائو سے ادا کرتے ہیں۔ قدیم زمانے کے شاہان عجم اپنے درباروں میں اسی طرح کے زر نگار، سونے، ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے تختوں پر جلوہ فروز ہوا کرتے تھے۔ (متکین) کے لفظ کے اندر گائو تکیوں کا مفہوم خود مضمر ہے اس لیے کہ ٹیک لگانے کے لیے مسندیں اور گائو تکیے ضروری ہیں اور زمانہ قدیم میں تخت شاہی کے لوازم میں یہ شامل بھی رہے ہیں۔ آمنے سامنے، بیٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دل باہمی رنج و رقابت اور کینہ و حسد سے بالکل پاک ہوں گے۔ جن کے دلوں کے اندر کدورت ہوتی ہے وہ ایک دوسرے سے منہ پھیر کے بیٹھتے ہیں لیکن اہل جنت کے دل کینہ و حسد سے، جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں تصریح ہے، بالکل پاک ہوں گے اس وجہ سے وہ مخلص اور محبت کرنے والے عزیزوں اور ساتھیوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے بیٹھیں گے۔ (یطوف علیھم ولد ان مخلدون باکواب وابا ریق وک اس من معین لا یصدعون عنھا ولا ینزفون وفاکھۃ مما یتخیرون و لحم طیر مما یشتھون) یہ اس سامان ضیافت کی طرف اشارہ ہے جو انکے لیے وہاں مہیا ہوگا۔ فرمایا کہ ان کی خدمت میں غلمان پیالے، جگ اور شراب خالص کے جام لیے ہوئے ہر وقت حاضر باش ہوں گے۔) (مخلدون) کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک ہی سن و سال کے رہیں گے۔ ان کی حیثیت دائمی خدام کی ہوگی۔ مجلس خدمات کے لیے ایک خاص سن کے لڑکے ہی زیادہ موزوں، خوش آداب و مستعد و سرگرم خیال کیے جاتے ہیں اس وجہ سے ان کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایک ہی سن کا رکھے گا اور چونکہ مزاج شناس خادم ہی اپنے آقا کی سب سے زیادہ بہتر طریقہ پر خدمت کرسکتا ہے اس وجہ سے جو لڑکے جن کے ساتھ لگا دیئے جائیں گے وہ برابر انہی کی خدمت میں رہیں گے۔ قرآن کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لڑکوں کو اللہ تعالیٰ خاص اسی مقصد کے لیے بنائے گا۔ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ کفار کے بچے، جونا بالغی میں وفات پا جائیں گے، ان کو اللہ تعالیٰ اہل جنت کی خدمت میں لگادے گا۔ اس رائے کے حق میں اگرچہ قرآن میں کوئی اشارہ نہیں ہے لیکن کوئی ایسی چیز بھی نہیں ہے جو اس کے خلاف جاتی ہو۔ اس لیے کہ کفار کے بچوں کے دوزخ میں جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ اس خدمت ہی میں لگائے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی جنت بہت وسیع اور وہ بڑا کریم ہے۔ وہ ان کو ان کی بےگناہی کے صلہ میں جنت دے سکتا ہے۔ (اکواب، کو ب) کی جمع ہے اور کو ب اور کپ (CUP) ایک ہی چیز ہے۔ (اباریق) جمع ہے (ابریق) کی۔ ابریق فارسی کے آب ریز سے مغرب معلوم ہوتا ہے اور یہ چیز اپنی جگہ پر تابت ہے کہ عربوں نے بہت سے تمدنی الفاظ عجمیوں سے لیے ہیں۔ لفظ کاس ظرف اور مظروف یعنی شراب اور جام شراب دونوں کے لیے آتا ہے۔ معین خالص پانی اور خالص پانی کے چشمہ کے لیے بھی قرآن میں آیا ہے اور شراب خالص کے ایک چشمہ کے لیے بھی جو جنت میں ہے یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے۔ (لا یصدعون عنھا ولا ینزفون) یہ شراب ایسی ہوگی کہ اس سے شراب کا جو اصل فائدہ ہے یعنی سرور، وہ تو حاصل ہوگا لیکن اس دنیا کی شراب کے تمام مضر اثرات سے وہ بالکل پاک ہوگی۔ یہاں کی شراب سے اعضاء شکنی، خماز اور درد سر بھی لا حق ہوتا ہے۔ جنت کی شراب میں یہ فاسد نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اس دنیا کی شراب کا سب سے بڑا مفسدہ یہ ہے کہ اس سے عقل جاتی رہتی ہے درآنحالیکہ عقل ہی انسان کا اصل جوہر ہے اور ایک منٹ کے لیے اس کا فتور نہ جانے کن کن ہلاکتوں میں اس کو ڈال سکتا ہے۔ جنت کی شراب اس زہر سے محفوظ ہوگی۔ (نزف الرجل) کے معنی ہیں (ذھب، عقلہ) آدھی کی عقل جاتی رہی۔ (وفاکھۃ مما یتخیرون ولحم طیر مما یشتھون) شراب کے ساتھ ساتھ یہ دوسرے لوازم کا ذکر ہے کہ غلمان ان کے سامنے ان کے انتخاب کے پھل اور ان کی پسند کے پرندوں کے گوشت بھی لیے پھریں گے۔ کھانے کی چیزوں میں سر فہرست یہی دو چیزیں ہیں۔ ان کا ذکر آگیا تو گویا سب ہی کا آگیا۔ ان کے ساتھ (مما یتخیرون) اور مما یشتھون) کی قید اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ ہر شخص کے ذوق اور انتخاب کا یورایورا لحاظ ہوگا۔ پھل ان کے سامنے وہ پیش کیے جائیں گے جن کا وہ انتخاب کریں گے اور گوشت ان پرندوں کے ان کے سامنے حاضر کیے جائیں گے جن کی وہ خواہش کریں گے۔ (وحورعین کا مثال للولوالمکنون) کھانے اور پینے کی ساری لذتیں انسان کے لیے ادھوری ہیں اگر ان میں بیوی شریک نہ ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے سرمایہ راحت و سکینت بنایا ہے۔ جس طرح اس دنیا میں آدمی اس شریک رنج و راحت کا محتاج ہے، جس کے بغیر اس کی بزم سونی رہتی ہے، اسی طرح جنت میں بھی اس کی لذت ادھوری رہ جاتی اگر یہ اس میں شریک نہ ہوتی، چناچہ اللہ تعالیٰ وہاں اس کو غزال چشم اور درمکنون کی طرح اچھوتی اور پاک حوریں دے گا۔ ان دو صفتوں کے اندر ان حوروں کے حسن ظاہر اور حسن باطن کے سارے پہلو جمع ہوگئے۔
Top