Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 145
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ١ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) فِي : میں الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ : سب سے نیچے کا درجہ مِنَ : سے النَّارِ : دوزخ وَلَنْ تَجِدَ : اور ہرگز نہ پائے گا لَھُمْ : ان کے لیے نَصِيْرًا : کوئی مددگار
منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقے میں ہوں گے اور تم ان کا کوئی مددگار نہ پاؤگے
145۔ 147:۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا۔ اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَھُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا۔ مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِــيْمًا۔ الدرک الاسفل کا مفہوم : الدرک الاسفل، درک کے معنی اقصی قعر الشیء، یعنی کسی شے کا سب سے نچلا حصہ۔ دین بمعنی اطاعت : واخلصو دینہم : لفظ دین کے مختلف معانی پر ہم کہیں بحث کرچکے ہیں۔ ازاں جملہ اس کے معنی اطاعت کے بھی ہیں۔ مثلا قل انی امرت ان اعبد اللہ مخلصا لہ الدین : کہہ دو مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں اللہ ہی کی بندگی کروں اس کی مخلصانہ اطاعت کے ساتھ "۔ منافقین کا درجہ کفار سے بھی نیچے ہے : یہ منافقین کو آخری تنبیہ ہے کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ کفر صریح کے بالمقابل ان کا یہ مذبذب ایمان بھی تو بہر حال کچھ قیمت رکھتا ہی ہے۔ فرمایا کہ نہیں، یہ منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے یعنی ان کا درجہ کٹر اور معاند کفار کے درجے سے بھی نیچے ہے۔ توبہ کے سوا کوئی چیز بھی ان کو اس انجام سے نہیں بچا سکتی۔ اور اس توبہ کے لیے اصلاح، اعتصام باللہ اور اخلاص کی شرط ہے۔ اصلاح یعنی اپنے رویے کی اصلاح کریں، اعتصام یعنی اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑیں، اخلاص یعنی اللہ و رسول کی مخلصانہ اطاعت کریں، بغیر کسی تذبذب اور ریا کے۔ فرمایا کہ تب یہ آخرت میں مسلمانوں کے ساتھ ہوسکتے ہیں۔ اور یہ اطمینان رکھیں کہ اللہ کے ہاں اہل ایمان کے لیے بڑا اجر ہے۔ اس کے بعد خود ان منافقین کو مخاطب کرکے، بانداز التفات فرمایا کہ خدا کو تمہیں عذاب دینے میں کوئی نفع نہیں ہے۔ اگر تم شکر گزار بنو اور ایمان اختیار کرو تو اللہ بڑا قدر دان اور ہر ایک کے ایمان و عمل سے اچھی طرح باخبر ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ فلسفہ دین کے اعتبار سے شکر ہی سچے ایمان کا سرچشمہ ہے۔ نیز یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ بعض مرتبہ نسبت کے بدل جانے سے الفاظ کے معنی بدل جاتے ہیں۔ چناچہ شکر کی نسبت جب خدا کی طرف ہوتی ہے تو اس کے معنی قبول کرنے کے ہوجاتے ہیں۔ ان دونوں باتوں پر دوسرے مقام میں بحث گزر چکی ہے۔
Top