Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 21
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُهٗ حُطَامًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ۠   ۧ
اَلَمْ تَرَ : کیا تو نے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ اَنْزَلَ : اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً : پانی فَسَلَكَهٗ : پھر چلایا اس کو يَنَابِيْعَ : چشمے فِي الْاَرْضِ : زمین میں ثُمَّ : پھر يُخْرِجُ : وہ نکالتا ہے بِهٖ : اس سے زَرْعًا : کھیتی مُّخْتَلِفًا : مختلف اَلْوَانُهٗ : اس کے رنگ ثُمَّ يَهِيْجُ : پھر وہ خشک ہوجاتی ہے فَتَرٰىهُ : پھر تو دیکھے اسے مُصْفَرًّا : زرد ثُمَّ يَجْعَلُهٗ : پھر وہ کردیتا ہے اسے حُطَامًا ۭ : چورا چورا اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَذِكْرٰى : البتہ نصیحت لِاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی اتارتا ہے آسمان سے پانی پس اس کے چشمے جاری کردیتا ہے زمین میں پھر اس سے پیدا کرتا ہے کھیتیاں مختلف قسموں کی پھر وہ خشک ہونے لگتی ہیں اور تم ان کو زرد دیکھتے ہو۔ پھر وہ ان کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے۔ بیشک اس کے اندر اہل عقل کے لئے بڑی یاد دہانی ہے
4۔ آگے کا مضمون آیات 35-21 آگے قرآن سے اعرضا کرنے والوں کے سبب اعراض پر ضرب لگای ہے کہ اس دنیائے فائی کی محبت نے ان کے دل سخت کردیئے ہیں جس کے سبب سے وہ حق سے بیزار ہیں ورنہ قرآن ایک عظیم نعمت ہے جن کے اندر صلاحیت ہے اس کی آیتیں سن کر ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ البتہ جن کے دل پتھر ہوچکے ہیں وہ اس سے محروم رہیں گے اور اسی عذاب سے دوچار ہوں گے جس سے رسولوں کی تکذیب کرنے والی پچھلی قومیں تباہ ہوچکی ہیں۔ اس قرآن نے تمام حقائق بہتر سے بہتر انداز میں بیان کردیئے ہیں۔ جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کی شامت ہی ہے۔ مبارک ہیں وہ جو اس صداقت کو قبول کر رہے ہیں۔ وہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور ان کے لئے بہترین صلہ ہے … آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 5۔ ال فاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت آیت 21 مکذبین قرآن کو یاد دہانی یہ قرآن کے مکذبین کو اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ آج تم کو جس انجام سے قرآن اور پیغمبر ڈرا رہے ہیں وہ تم کو بہت مستبعد معلوم ہوتا ہے اپنی موجودہ کامیابیوں کے نشہ میں تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ تمہارے اس اقتدار پر زوال کدھر سے آجائے گا، حالانکہ تم برابر دیکھ رہے ہو کہ اس دنیا کی ہر چیز وقتی اور فانی ہے۔ بارش ہوتی ہے، جس سے زمین میں پانی کے چشمے جاری ہوجاتے ہیں، پھر اس سے طرح طرح کی نباتات اور کھیتیاں اگ پڑتی ہیں۔ پھر وہ خشک ہونی شروع ہوتی ہیں، پھر وہ زرد پڑجاتی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ ان کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے۔ لفظ الوات اقاسم و انواع کئے معنی میں بھی آتا ہے اس کی تحقیق اس کے محل ہوچکی ہے۔ ماج البقل کے معنی ہوں گے اخذ فی الیس سبزی خشک ہونے لگی۔ ان فی ذلک لذکری لاولی الالباب یعنی جو عقل رکھنے والے ہیں اس مشاہدے میں ان کے لئے بڑی عبرت ہے۔ اس میں سب سے بڑی یاد دہانی تو اس حقیقت کی ہے کہ اس دنیا کی تمام رونقیں اور شانیں بالکل عارضی اور وقتی ہیں اس وجہ سے ان پر یرجھنے کے بجائے عاقل کو اس ذات کی طرف متوجہ رہنا چاہئے جو ان تمام چیزوں کو وجود میں لانے والی اور مستقل بالذات ہے۔ دوسری یا دہانی اس میں یہ ہے کہ جس پروردگار نے اپنے بندوں کی پرورش کے لئے اس دنیا میں یہ اتنظام فرمایا ہے اس کی اس پروردگاری کا فطری تقاضا یہ ہے کہ بندے اسی کے شکر گزار ہیں اس کے سوا کسی اور کو اس شکر گزاری میں شریک نہ کریں۔ تیسری یہ کہ جس خدا نے پروردگاری کا یہ انتظام فرمایا ہے اور آسمان سے زمین تک ہر چیز کو جس نے انسان کی خدمت میں سرگرم کر رکھا ہے وہ لوگوں کو یوں ہی نہیں چھوڑ دے گا بلکہ ایک ایسا دن بھی لازماً آنا ہے جس میں وہ ہر شخص سے اس کی نیکیوں اور بدیوں کا حساب کرے گا اور انصاف کے مطابق اس کو جزا یا سزا دے گا۔ یہاں یہ چند باتیں کلام کے سیاق وسباق کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ اس مثال کے اندر جو دوسرے پہلو ہیں ان کی وضاحت ان کے محل میں ہوچکی ہے اور ایک خاص پہلو کی وضاحت آگے کی آیت سے ہوجائے گی۔
Top