Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 40
وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ١ؕ اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَا١ۚ بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا
وَلَقَدْ اَتَوْا : اور تحقیق وہ آئے عَلَي : پر الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْٓ : وہ جس پر اُمْطِرَتْ : برسائی گئی مَطَرَ السَّوْءِ : بری بارش اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا : تو کیا وہ نہ تھے يَرَوْنَهَا : اس کو دیکھتے بَلْ : بلکہ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے نُشُوْرًا : جی اٹھنا
اور یہ لوگ تو اس بستی پر سے گزرے بھی ہیں جس پر تباہی کی بارش برسائی گئی کیا یہ اس کو دیکھتے نہیں رہے ہیں ! بلکہ یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے متوقع نہیں رہے ہیں
آنکھوں میں بصیرت آخرت کے تصورت سے پیدا ہوتی ہے یہ اشارہ قوم لوط کی بستی کی طرف ہے۔ امطرت مطر السوء سے مراد وہ عذاب ہے جو ان پر آیا۔ اس عذاب کی نوعیت ہم نے اس کتاب میں اس کے محل میں واضح کی ہے۔ اگر اس کی پوری تحقیق مطلوب ہو تو مجموعہ تفاسیر فراہمی میں سورة ذاریات کی تفسیر پڑھیے۔ یہ قریش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ دوسری قوموں کے احوال و مقامات سے دور یا نابلد ہیں تو کیا اس قوم کے آثار سے بھی نا آشنا ہیں جو ہمارے نہایت ہولناک عذاب کا نشانہ بنی ! اس بستی پر سے تو یہ آئے دن اپنے تجارتی سفروں میں گزرتے ہیں ! کیا اس کے آثار بھی یہ نہیں دیکھتے رہے ہیں ! دیکھتے تو رہے ہیں لیکن چونکہ یہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے اس وجہ سے سب کچھ دیکھنے کے باوجود اندھے بنے ہوئے ہیں۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ قریش کے تجارتی قافلے قوم لوط کی بستیوں کے کھنڈروں پر سے برابر گزرتے تھے۔ اس کی وضاحت ہم اس کے محل میں کرچکے ہیں۔ اس آیت میں یہ حقیقت واضح ہوئی کہ آدمی کی آنکھوں کے اندر بصیرت آخرت کے تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہو تو آدمی بظاہر ٹک ٹک دیکھتا تو ہے لیکن اسے نظر کچھ نہیں آتا۔
Top