Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 20
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً١ؕ اَتَصْبِرُوْنَ١ۚ وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : بھیجے ہم نے قَبْلَكَ : تم سے پہلے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع) اِلَّآ : مگر اِنَّهُمْ : وہ یقیناً لَيَاْكُلُوْنَ : البتہ کھاتے تھے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشُوْنَ : اور چلتے پھرتے تھے فِي الْاَسْوَاقِ : بازاروں میں وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا (بنایا) بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض کو (کسی کو) لِبَعْضٍ : بعض (دوسروں کے لیے) فِتْنَةً : آزمائش اَتَصْبِرُوْنَ : کیا تم صبرو کرو گے وَكَانَ : اور ہے رَبُّكَ : تمہارا رب بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں میں سے جن کو بھی بھیجا وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے تو بولو، صبر کرتے ہوچ اور تمہارا رب سب دیکھ رہا ہے
تمام رسول بشر تھے اس آیت میں اگرچہ خطاب بظاہر نبی ﷺ سے ہے لیکن آیت کے الفاظ خود شاید ہیں کہ کلام رخ عام لوگوں کی طرف ہے چناچہ اس میں ضمیریں اور فعل واحد بھی استعمال ہوئے ہیں اور جمع بھی۔ یہ معترضین کے اس اعتراض کا جواب ہے جو اوپر آیت 7 میں نقل ہوا ہے فرمایا کہ اگر تم بشر ہو، کھانا بھی کھاتے اور بازاروں میں لین دین کے لئے بھی تمہیں جانا پڑتا ہے تو ان میں سے کوئی بات بھی منصب رسالت کے منافی نہیں ہے۔ تم سے پہلے جتنے رسول بھی ہم نے بھیجے وہ سب بلا استثناء کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں عام آدمیوں کی طرح چلتے پھرتے بھی تھے۔ قرآن کا یہ جواب بالکل واضح ہے اس لئے کہ یہ معترضین حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کو نہ صرف نبی و رسول مانتے تھے بلکہ ان کی ذریت اور ان کے دین کے وارث ہونے پر ان کو بڑا فخر و ناز تھا لیکن ان میں سے کسی کے متعلق بھی ان کا یہ دعویٰ نہیں تھا کہ وہ مافوق بشر تھے بلکہ ان کو وہ بشر ہی تسلیم کرتے تھے۔ اسی طرح نبی اسرائیل بھی اپنے انبیاء میں سے کسی کے مافوق بشر ہوکنے کے قائل نہیں تھے۔ چناچہ قرآن نے دوسرے مقام میں قریش کے ان معتضرین سے کہا بھی ہے کہ اگر تم نبوت و رسالت کی تاریخ سے بیخبر ہو تو ان اہل کتاب سے پوچھ لو جو انبیاء و رسل کی تاریخ سے واقف ہیں کہ ان کے انبیاء کھانا کھاتے تھے یا نہیں اور انہیں بازاروں میں چلنے پھرنے کی ضرورت پیش آتی تھی یا نہیں ؟ عیسائیوں نے اگرچہ پال کے زمانہ سے حضرت عیسیٰ کو مافوق بشر بنانے کی بڑی کوشش کی لیکن ان کے اور ان کی والدہ ماجدہ کے کھانا کھانے سے وہ بھی انکار نہیں کرسکتے اس لئے کہ انجیلوں میں یہ چیز نہایت تصریح کے ساتھ موجود ہے۔ چناچہ قرآن نے اس کو بھی ان کے متعلق دعوائے الوہیت کے خلاف دلل کے طور پر پیش کیا ہے۔ کا نا یاکلن الطعام (مائدہ 75) (ماں بیٹا دونوں کھانا کھاتے تھے۔ انبیاء اور ان کی امتوں کے لئے ایک امتحان وجعلنا بعضکم لبعض فتۃ بعینیہ یہی مضمون انعام آیت 53 میں گزر چکا ہے۔ وہاں فرمایا ہے۔ وکذلک بعضھم ببعض لیقولوآ اھولاً ء من اللہ علیھم من بیننا (اسی طرح ہم نے ایک کو دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے تاکہ یہ متکبرین کہیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان سے اپنیفضل سے منتخب کیا !) یعنی مسلمانوں کی غبرت ان کفار کے لئے فتنہ بن گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تمام نعمتوں اور مال و جاہ کے وارث اور مالک ہم ہیں تو یہ دین اگر کوئی خدائی دین ہوتا تو وہ ان قلاش مسلمانوں کو کس طرح ملتا، وہ بھی لازماً ہمیں ملتا اور اگر اللہ انسانوں ہی میں کسی کو نبی بنانے والا ہوتا تو طائف یا مکہ کے کسی رئیس کو بناتا نہ کہ محمد ﷺ جیسے غریب آدمی کو اس منصب پر سرفراز کرتا ! اسی طرح یہاں فرمایا ہے کہ ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لئے آزمائش بنایا ہے۔ یعنی تمہاری غربت ان کے لئے قبول حق کی راہ میں حجاب بن گئی ہے۔ حق تو یہ تھا کہ وہ نعمت پا کر خدا کے شکر گزار بندے بنتے لیکن یہ نعمت ان کے لئے استکبار کا سبب بن گئی اور اس استکبار کے نشہ میں انہوں نے تمہاری پیش کردہ دعوت پر غور کرنے اور اس کو اختیار کرنے کے بجائے تمہیں اعتراضات و مطاعن کا ہدف بنا لیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے صبر کا امحتان ہے۔ عربیت کا ایک بلیغ اسلوب الصبرون یہ مسلمانوں کو خطاب کر کے ارشاد ہوا کہ وہ تو اپنے شکر کے امتحان میں بالکل ناکام رہے، اب تم بتائو کہ تم ان کے طنز و استہزاء اور ان کی مخالفت و وعداوت کے مقابل میں ثبت قدم رہنے والے بنتے ہو یا نہیں ؟ عربیت کا ذوق رکھنے والوں سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جب امر کے اندر ترغیب و تشویق اور حث وتحریض کا مفہوم پیدا کرنا ہو تو وہ خبر یہ اسلوب کے قالب میں آتا ہے اور اگر اس پر حرف استفہام آجائے تو اس کے اندر مزید زور پیدا ہوجاتا ہے۔ ھل انتم مجتمعون (شعراء :39) کے تحت اس اسلوب کی مزید وضاحت آئے گی اور پیچھے بھی اس کی بعض عمدہ مثالیں گزر چکی ہیں۔ یہ مسلمانوں کو اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ اگر تمہارے مخالفین اپنے امتحان میں ناکام رہے تو ان کو ان کی قسمت کے حوالہ کرو، تمہارے سامنے صبر کے امتحان کا جو مرحلہ ہے اس میں کامیابی کے لئے عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھو۔ وکان ربک بصیراً یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا نگران حال ہے۔ اس کی نصرت پر پورا بھروسہ رکھو۔ اگر تم ثابت قدم رہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان تمام مخالفتوں کے علم الرغم منزل مقصود پر پہنچائے گا۔ اس آیت میں فتنہ کو اللہ تعالیٰ نے جو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے یہ اس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جو اس نے اپنے بندوں کے امتحان کے لئے اس دنیا میں جاری فرمائی ہے۔ اس کی وضاحت ہم جگہ جگہ کرتے آ رہے ہیں۔
Top