Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 15
قُلْ اَذٰلِكَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَّ مَصِیْرًا
قُلْ : فرما دیں اَذٰلِكَ : کیا یہ خَيْرٌ : بہتر اَمْ : یا جَنَّةُ الْخُلْدِ : ہمیشگی کے باغ الَّتِيْ : جو۔ جس وُعِدَ : وعدہ کیا گیا الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار (جمع) كَانَتْ : وہ ہے لَهُمْ : ان کے لیے جَزَآءً : جزا (بدلہ) وَّمَصِيْرًا : لوٹ کر جانے کی جگہ
ان سے پوچھو، کیا یہ بہتر ہے یا وہ جنت ابد جس کا خدا ترسوں سے وعدہ کیا جا رہا ہے ! وہ ان کے لئے صلہ اور ٹھکانا ہو گی
آیت 16-15 جنت اور اہل جنت کی تصویر اب یہ اس اصل مدعا کا ذکر ہے جس کے لئے دوزخ کی یہ ساری تفصیل سنائی گی ہے۔ پیغمبر ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا کہ جو لوگ تمہیں طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارے پاس کوئی باغ کیوں نہ ہو ان سے پوچھو کہ یہ دوزخ بہتر ہے جو ان کے لئے تیار ہے یا وہ جنت خلد جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں سے وعد فرما رکھا ہیچ یعنی تمہاری نگاہیں چونکہ اسی دنیا کی زندگی تک محدود ہیں اس وجہ سے تم اپنے باغوں اور محلوں پر نازاں اور مومنین کی بےمائیگی پر طعنہ زن ہو۔ اگر تمہیں آخرت کا علم ہوتا اور تم یہ جان سکتے کہ وہ وہاں تمہایر لئے کیا عذاب تیار ہے اور اہل ایمان کے لئے کس ابدی بادشاہی کا اہتمام ہے تو تم ان غریب اہل ایمان پر و شک کرتے اور اپنی شامت اعمال پر اپنے سرپیٹتے لیکن تمہیں تو اس دنیا کے غرور نے اس طرح اندھا کردیا ہے کہ اپنی ناک سے آگے تمہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اس جنت سے متعلق یہاں چار باتیں فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ اہل ایمان کو ان کے اعمال کے صلے اور بدلے کے طور پر ملے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کو یہ اطمینان دلا دے گا کہ یہ تم نے اپنی سعی و عمل سے حاصل کی ہے اور تم اس کے پوری طرح حقدار رہو۔ دوسری یہ کہ یہ ان کی ابدی قیام گاہ ہوگی۔ اس سے محروم ہونے کا ان کو کبھی کوئی اندیشہ نہ ہوگا۔ تیسری یہ کہ اس میں وہ سب کچھ ملے گا جو وہ چاہیں گے اور ہمیشہ کے لئے ملے گا۔ چوتھی یہ کہ اس جنت کا اہل ایمان سے اللہ تعالیٰ نے حتمی وعدہ فرمایا ہے اور از خود اپنے اوپر اس کا ایفاء واجب اور اپنے بندوں کے آگے اس کے لئے اپنے کو ذمہ دار و مسئول ٹھہرایا ہے۔
Top