Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور یاد کرو جب کہ تم نے ایک نفس کو قتل کردیا، پھر اس کے بارے میں ایک دوسرے پر الزام بازی کی، حالانکہ اللہ وہ سب کچھ ظاہر کرنے والا ہے جو تم چھپاتے رہے ہو
دَرَءٌ کے معنی دفع کرنے اور پھینکنے کے ہیں۔ اسی سے تدارأ تم ہے جو ادغام کے قاعدے سے اِدَّارَءۡ تُمۡ ہو گیا ہے۔ اس کے معنی آپس میں ایک دوسرے پر الزام لگانے کے ہیں۔ وَٱللهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنۡتُمْ تَكْتُمُوۡنَ: اور اللہ ظاہر کرنے والا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ یہاں بطور جملہ معترضہ کے ہے۔ اس کے بعد کا ٹکڑا فَقُلْنَا اضْرِبُوۡهُ بِبَعْضِهَا (پس ہم نے کہا کہ اس کو اس کے بعض سے مارو) فادرء تم فیھا سے لگتا ہوا ہے۔ اس جملہ معترضہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو قتل کر کے تم دنیا میں ایک دوسرے پر الزام بازی کر کے اس کو چھپانے کی کوشش کر سکتے ہو لیکن یاد رکھو کہ اگر کوئی چیز تم نے دنیا میں چھپا لی تو وہ ہمیشہ چھپی نہیں رہ جائے گی بلکہ ایک دن اللہ تعالیٰ وہ سب کچھ ظاہر کر کے رہے گا جو تم چھپا رہے ہو۔ یہ وَاِذْ قَتَلْتُمْ سے گائے کے ذبح کرنے کے حکم کا اصل مقصد بیان ہو رہا ہے۔ اوپر یہ واضح کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل جو آج خدائی شریعت کے واحد اجارہ دار بنے بیٹھے ہیں ان کی ذہنیت اس شریعت کے قبول کرنے کے معاملے میں کیا کر رہی ہے۔ وہ کس طرح قدم قدم پر اس کے قبول کرنے کے معاملہ میں طرح طرح کی حجتیں کرتے رہے ہیں۔ اب وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا سے آگے کے حصہ میں یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ گائے کے ذبح کا یہ حکم کس مقصد سے دیا گیا تھا اور اس معاملہ میں انہوں نے کیا روش اختیار کی۔
Top