Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پھر بدل ڈالا الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا قَوْلًا : بات غَيْرَ الَّذِیْ : دوسری وہ جو کہ قِیْلَ لَهُمْ : کہی گئی انہیں فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا عَلَى : پر الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا رِجْزًا :عذاب مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : کیونکہ کَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
تو جنہوں نے ظلم کیا انہوں نے بدل دیا اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی دوسری بات سے پس ہم نے ان لوگوں پر جنہوں نے ظلم کیا ان کی نافرمانی کے سبب سے آسمان سے عذاب اتارا
یعنی دعا کے لئے جو لفظ ان کو تلقین کیا گیا تھا اس کو انہوں نے بالکل مختلف مفہوم رکھنے والے لفظ سے بدل لیا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مراد الفاظ کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ رویہ کی تبدیلی ہے۔ پرانوں میں سے ابو مسلم اصفہانی کا یہی خیال ہے لیکن قرآن کے الفاظ سے اس خیال کی تائید نہیں ہوتی۔“بدل”کا لفظ جب اپنے دو مفعولوں کے ساتھ آتا ہے، جیسا کہ یہاں ہے اگرچہ ایک محذوف ہے، تو اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ ایک چیز کی جگہ دوسری چیز رکھ دی۔ پھر جب واضح الفاظ میں یہاں یہ بات کہی گئی ہے کہ ظالموں نے اس قول کو جو ان سے کہا گیا تھا ایک دوسرے قول سے بدل دیا جو ان سے نہیں کہا گیا تو اس سے مراد صرف رویہ اور عمل کی تبدیلی مراد لینا قرآن سے صریح انحراف ہے۔ ہمارے نزدیک یہاں صرف رویہ اور عمل کی تبدیلی کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ قرآن کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ بنی اسرائیل کے کچھ بدبختوں نے ‘حطّۃ’ کے لفظ کو اس سے بالکل مختلف مفہوم رکھنے والے لفظ سے بدل لیا تھا۔ رہا یہ سوال کہ انہوں نے کس لفظ سے اس کو بدلا تھا تو قرآن میں اس کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ اہل تاویل سے مختلف اقوال منقول ہیں جن میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی جزم کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ مجھے کبھی کبھی خیال ہوتا ہے کہ جس طرح نصاریٰ نے اپنی سورہ فاتحہ کے فقروں کے مفہوم میں تبدیلی کر دی اسی طرح کی تبدیلی بنی اسرائیل نے اپنی اس دعا کے مفہوم میں کر دی۔ نصاریٰ کی فاتحہ مندرجہ لوقا باب ۱۱، ۱-۴ میں یہ الفاظ آتے ہیں۔“ہماری روز کی روٹی ہمیں دیا کر”ظاہر ہے کہ اصل دعا کے مفہوم سے بالکل ہٹے ہوئے ہیں۔ اصل دعا تو یوں ہو گی کہ ہمیں وہ روح ہدایت بخش جو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔۱؂ لیکن چونکہ عبرانی میں روٹی کے لئے جو لفظ ہے وہ روحانی غذا اور مادی روٹی دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اس وجہ سے ہدایت کی تعبیر کے لئے یہی مشترک لفظ استعمال ہوا ہوگا۔ بعد میں ترجموں میں آ کر ہدایت کی روح غائب ہو گئی صرف روٹی بچ رہی۔ اسی طرح کی کوئی تبدیلی بنی اسرائیل نے بھی دعا کے الفاظ میں کر دی جس سے دعا کی اصل روح بالکل بدل گئی۔ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ: رجز اور رجس، دونوں ایک ہی لفظ کی دوشکلیں ہیں۔ ان کا اصل مفہوم اضطراب اور ارتعاش ہے۔ یہیں سے یہ گندگی اور نجاست کے لئے استعمال ہوئے کیوں کہ گندگی اور نجاست کو دیکھ کر طبیعت میں ایک قسم کا اضطراب اور سنسنی پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر یہ عذاب کے لئے استعمال ہوئے کیونکہ عذاب بھی دلوں میں ایک قسم کا اضطراب اور کپکپی پیدا کردیتا ہے۔ اس کے ساتھ مِنَ السَّمَاءِ (آسمان سے) کا اضافہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس حادثہ کی نوعیت عام حوادث سے بالکل مختلف نوعیت کی تھی۔ اس میں قدرت کی غضبناکی کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ تورات کے بعض مقامات میں اس مخصوص نوعیت کی یوں وضاحت کی گئی ہے: “اگر یہ آدمی ویسے ہی موت سے مریں جو سب لوگوں کو آتی ہے یا ان پر ویسے ہی حادثے گزریں جو سب پر گزرتے ہیں تو میں خداوند کا بھیجا ہوا نہیں ہوں پر اگر خداوند کوئی نیا کرشمہ دکھائے اور زمین اپنا منہ کھول دے اور ان کو اس کے گھر بار سمیت نگل جائے اور جیتے جی پاتال میں سما جائیں تو تم جاننا کہ ان لوگوں نے خداوند کی تحقیر کی۔”(گنتی باب ۱۶ – آیات ۲۹-۳۰) قرآن نے مذکورہ عذاب کی اس مخصوص نوعیت کو مِنَ السَّمَاءِ کے لفظ سے ظاہر کیا ہے جس طرح ہم کسی ہولناک آفت کو قہر آسمانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ رہا یہ سوال کہ یہ عذاب کیا تھا تو خاص اس قریہ سے متعلق جس کا یہاں ذکر ہے، اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔ البتہ تورات کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سفر کے دوران متعدد بار بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی شدید نافرمانیاں کیں، اور ان نافرمانیوں کی پاداش میں وہ مختلف وباؤں کا شکار ہوئے۔ مثلاً جس زمانہ میں بنی اسرائیل شیطم میں (جو ارض فلسطین کے بالکل پاس کا ایک شہر تھا) تھے تو ان لوگوں نے موآبی عورتوں کے ساتھ بدکاریاں کیں، ان کی دعوت پر یہ لوگ ان کی مشرکانہ قربانیوں میں شریک ہونے لگے اور اس طرح بالواسطہ ان کے دیوتا“بعل فغور”کی پرستش شروع کر دی جس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سخت وبا بھیجی جس میں ان کے چوبیس ہزار نفوس ہلاک ہوئے۔ کتاب گنتی کے باب ۳۳ میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے موآب کے میدانوں میں بنی اسرائیل کو یہ ہدایت بھی کر دی تھی کہ جب تم یرون کو عبور کر کے ملک کنعان میں داخل ہونا تو تم یہاں کے سب مشرکوں کو نکال دینا، ان کے شبیہ دار پتھروں اور ان کے ڈھالے ہوئے بتوں کو توڑ ڈالنا اور ان کے اونچے مقامات کو مسمار کر دینا۔ اگر تم نے اس کی خلاف ورزی کی تو یاد رکھو کہ جیسا میں نے تم کو ان کے ساتھ کرنے کے لئے کہا ہے ویسا ہی تمارے ساتھ کروں گا۔ معلوم ہوتا ہے بنی اسرائیل نے اپنی عادت کے مطابق پیغمبر کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کی جس کی پاداش میں ان پر اسی قسم کی کوئی وبا آئی جس قسم کی وبا شیطم میں آئی تھی۔ ۱؂ ملاحظہ ہو مولانا فراہیؒ کی تفسیر سورۂ فاتحہ۔
Top