Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ : اور تم ان سے لڑو حَتّٰى : یہانتک کہ لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنِ : پس اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَلَا : تو نہیں عُدْوَانَ : زیادتی اِلَّا : سوائے عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ کا ہوجائے۔ اور اگر یہ باز آجائیں تو پھر اقدام صرف ان کے خلاف جائز ہے جو ظالم ہیں۔
سرزمین حرم میں اسلام کے سوا کسی اور دین کے لیے گنجائش نہیں : اس آیت سے اوپر والی آیت کے مضمون کی مزید وضاحت ہوگئی کہ کفار قریش سے یہ جنگ اس وقت تک جاری رہنی ہے جب تک سرمین حرم پر فتنہ کا کوئی اثر باقی ہے اور اللہ کے دین کے سوا کسی دوسرے دین کے لیے یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اور اب یہ کام حضرت ابراہیم کی دعا اور اللہ کے وعدے کے مطابق ہونا ہے، کفار اس کو پسند کریں یا ناپسند۔ اسی بات کو سورة صفت میں یوں فرمایا ہے " هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ : وہی خدا ہے جس نے اپنے رسول کو بھیجا اپنی ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس دین کو سارے دینوں پر غالب کرے، اگرچہ مشرکین اس چیز کو ناپسند کریں "۔ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ کا صحیح موقع و محل اور اس کا اصلی زور سمجھنے کے لیے یہاں بالاجمال اس سنت اللہ کو سمجھ لینا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے باب میں پسند فرمائی ہے۔ وہ سنت اللہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو وہ رسول اس قوم کے لیے خدا کی ٓخری اور کامل حجت ہوتا ہے۔ جس کے بعد کسی مزید حجت وبرہان کی اس قوم کے لیے ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد بھی اگر وہ قوم ایمان نہیں لاتی بلکہ تکذیب رسول اور عداوت حق ہی پر اڑی رہ جاتی ہے تو وہ فنا کردی جاتی ہے۔ عام اس سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی عذاب کے ذریعہ سے فنا ہو یا حق کے اعوان و انصار اور رسول کے ساتھیوں کے ہاتھوں اور عام اس سے کہ یہ واقعہ رسول کی زندگی ہی میں ظہور میں آئے یا اس کی وفات کے بعد۔ ـلاغلبن انا ورسلی جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ اور اس مضمون کی دوسری آیات میں اسی سنت اللہ کی طرف اشارہ ہے اور اس کے ظہور کے لیے قرآن میں ایک مخصوص ضابطہ بیان ہوا ہے جس کی تفصیل کے لیے موزوں مقامات ہماری اس کتاب میں آئیں گے۔ (یہ ملحوظ رہے کہ میں نے یہاں جس سنت اللہ کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا تعلق خاص طور پر رسولوں سے ہے، ان انبیاء سے نہیں ہے جو صرف نبی تھے رسول نہیں تھے۔ نبی اور رسول کے اس فرق پر بھی مفصل بحث اپنے مقام میں آئے گی) اسی سنت اللہ کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے کہ اس آخری رسالت کے مقصد کی تکمیل اس بات پر ہوتی ہے کہ سرزمین حرم پر دین حق کے سوا اور کوئی دین باقی نہیں رہنے پائے گا۔ چناچہ اسی بنیاد پر قرآن نے کفار عرب کے سامنے، جن کے لیے آنحضرت ﷺ کی بعثت براہ راست تھی اور جو بیت اللہ پر بالکل ناجائز طور پر قابض تھے، صرف دو ہی راہیں باقی رکھی تھیں۔ یا تو اسلام قبول کریں یا تلوار۔ دوسرے کفار کی طرح ان کے لیے جزیہ کی گنجائش نہیں تھی۔ چناچہ جب اتمام حجت کا تقاضا پورا ہوگیا نبی ﷺ نے مکہ پر فوج کشی کی اور بیت اللہ پر قبضہ کر کے اس کو کفر و شرک کی تمام آلائشوں سے بالکل پاک کردیا اور جاء الحق و زھق الباطل کا اعلان فرما دیا۔ پھر حرم الٰہی کو مستقل طور پر کفر و شرک کے غلبہ سے پاک رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہوا کہ اس پورے علاقہ کو غیر اسلامی قبضہ یا مداخلت سے بالکل محفوظ کردیا جائے جس میں یہ حرم واقع ہے۔ چناچہ نبی ﷺ نے پورے جزیر عرب کے متعلق یہ ہدایت دے دی کہ " لایجتمع فیہ دینان " اس میں دین حق کے ساتھ کوئی اور دین جمع نہیں ہوسکتا۔ اور آخر وقت میں آپ نے یہود و نصاری کو بھی اس سرزمین سے نکال دینے کی وصیت فرمائی جس کی تعمیل میں حضرت عمر ؓ نے اپنے زمانے میں کی۔ یہ تدبیر مرکز اسلام کے سیاسی تحفظ کے لیے ضوری تھی اور یہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس گھر کے تحفظ کے لیے ہمیشہ بیدار رہیں اور کسی بھی غیر اسلامی طاقت کے قدم اس سرزمین پر جمنے نہ دیں۔ انْتَهَوْا کا مفہوم ہمارے نزدیک وہی ہے جن کی طرف ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں۔ عدوان کے اصلی معنی تو تعدی اور زیادتی کے ہیں لیکن یہاں یہ لفظ مجرد اقدام (Action) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں کبھی کبھی بعض الفاظ محض مجانست و ہم آہنگی کے لیے استعمال ہوجاتے ہیں۔ ان کا مفہوم موقع و محل سے متعین ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں " دنا ہم کما دانوا " ہم نے ان کو بدلہ دیا جیسا کہ انہوں نے ہمارے ساتھ کیا۔ ظاہر ہے کہ یہاں دانوا محض دِنّا کی مشابہت کی وجہ سے لایا گیا ہے ورنہ موقع " فعلوا " یا اس کے ہم معنی کسی لفظ کا ہے، یا قرآن میں ہے " جزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا : برائی کا بدلہ اسی کے مانند بدلہ ہے " ہر شخص جانتا ہے کہ کسی برائی کا بدلہ کوئی برائی نہیں ہے لیکن محض سابق لفظ کی ہم آہنگی کی وجہ سے جرم کے ساتھ اس کی سزا کو بھی سیئہ سے تعبیر کردیا۔ اسی طرح آگے والی آیت میں ہے فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ (جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کی زیادتی کے برابر اس کے خلاف اقدام کرو)۔ اس آیت میں کسی کی زیادتی کے جواب میں جو اقدام کیا جائے اس کو بھی اعتداء کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، حالانکہ یہ معنی میں محض اقدام کے ہے، صرف اپنے ما سبق کے ساتھ ہم آہنگی کی وجہ سے اس شکل میں استعمال ہوا۔ عربی زبان کے اسی معروف اسلوب کے مطابق زیر بحث آیت میں بھی لفظ عدوان استعمال ہوا لیکن مراد اس سے مجرد وہ اقدام ہے جو جوابی کارروائی کے طور پر کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز آکر اسلام کی راہ اختیار کرلیں تو ان کے پچھلے جرائم کی بنا پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی، پھر صرف انہی کے خلاف کوئی اقدام ہوگا جو اپنے کفر و شرک اور اپنے ظلم وعدوان پر جمے رہ جائیں۔
Top