Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 192
فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَاِنِ : پھر اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پس اگر وہ باز آجائیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
" پس اگر وہ باز آجائیں تو اللہ غفور رحیم ہے "۔ " باز آجائیں " سے مراد صرف جنگ سے رک جانا نہیں ہے۔ یہاں اس باز آجانے کا صلہ یہ بتایا ہے کہ " پھر اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے " ظاہر ہے کہ کفار اگر مسلمانوں سے جنگ نہ کریں تو اس کا زیادہ سے زیادہ صلہ یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان بھی ان کو مہلت دیں اور بالفعل ان سے جنگ نہ کریں، یہ صلہ تو اس کا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام کفر و فسق کو معاف کردے۔ اس سے یہاں باز آجانے سے مقصود اس عناد و مخالفت، اور اس جبر و ظلم (Persecution) سے باز آجانا ہے جس کے قریش مرتکب ہوئے تھے اور جس کے ذریعہ سے انہوں نے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا تھا اور ساتھ ہی بیت اللہ سے مسلمانوں کو روکنے سے باز آجانا ہے جس کے وہ کسی پہلو سے بھی حق دار باقی نہیں رہ گئے تھے۔ اس سورة میں قبلہ کی بحث سے لے کر یہاں تک کے مباحث پر اگر آپ کی نظر ہے تو یہ حقیقت آپ سے مخفی نہیں ہوسکتی کہ یہ ساری بحث عام کفار سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق خاص کفار قریش سے ہے۔ ان کی اور مسلمانوں کی نزاع کسی جزوی معاملہ کے لیے محض ایک وقتی نزاع نہیں تھی بلکہ اصلاً یہ نزع بیت اللہ کی تولیت کے لیے تھی۔ قرآن کا دعوی یہ تھا کہ حضرت ابراہیم کے بنائے ہوئے اس گھر کی تولیت کے اصلی حقدار اہل ایمان ہیں نہ کہ کفار و مشرکین جنہوں نے اس گھر کو اس کے بنیادی مقاصد کے بالکل خلاف شرک و کفر کا ایک گڑھ بنا کے رکھ دیا ہے۔ قرآن کا یہ بھی دعوی تھا کہ حضرت ابراہیم کی دعا اور وعدہ الٰہی کے بموجب جس آخری نبی کے ذریعہ سے اس گھر کے مقاصد کی تجدید و تکمیل ہوتی تھی، محمد رسول اللہ ﷺ کے ظہور قدسی نے اس وعدے کی تکمیل کردی اور اب یہ لازمی ہے کہ یہ گھر کفار و مشرکین کے تسلط سے آزاد اور کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک ہو کر ملت ابراہیم، اسلام، کا مرکز اور تمام اہل ایمان کا قبلہ بنے۔ یہ دعوی جن دلائل وبراہین اور جس زور و قوت کے ساتھ اس پوری سورت میں پیش ہوا ہے اس میں کہیں کسی لچک اور کسی نرمی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ واضح الفاظ میں بات یوں کہی جاسکتی ہے کہ بیت اللہ کو کفار کے قبضہ سے چھڑانا اور اس کو شرک و کفر کی تمام آلائشوں سے پاک کر کے از سرِ نو اس کو توحید واسلام اور ملت مسلمہ کا مرکز بنانا رسالت محمدی کا اصلی نصب العین تھا اور اس نصب العین کا حصول ہی گویا آنحضرت ﷺ کے مقدس مشن کا آخری کام تھا۔ اس روشنی میں غور کیجیے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہو کر سامنے آجائے گی کہ فَاِنِ انْتَهَوْا کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ کفار قریش جنگ سے رک جائیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی ان تمام مخالفانہ و معاندانہ حرکتوں سے، جن کے وہ آج اس دعوت حق کی مزاحمت کے لیے مرتکب ہو رہے ہیں، باز آکر اس کے حامی و معاون بن جائیں۔ اگر وہ یہ راہ اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے وہ تمام جرائم معاف کر دے گا جن کے وہ اب تک مرتکب ہوئے ہیں۔ بعینہ یہی بات کفار قریش ہی کو مخاطب کر کے سورة انفال میں یوں فرمائی گئی ہے " لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الأوَّلِينَ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ: ان کافروں کو بتا دو کہ اگر وہ باز آگئے تو جو جو کچھ وہ پہلے کرچکے ہیں وہ معاف کردیا جائے گا اور اگر انہوں نے پھر اسی طرح کی حرکتوں کا اعادہ کیا تو ہمارے اس طریقہ کو یاد رکھیں جو ہم نے پچھلی قوموں کے معاملے میں اختیار کیا اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ بالکل باقی نہ رہا جائے اور اس سرزمین پر سارا دین صرف اللہ کا ہوجائے۔ پس اگر وہ باز رہے تو جو کچھ وہ کریں گے اللہ اس کو دیکھ رہا ہے " (انفال :38-39)۔ یہی حقیقت سورة توبہ میں اس طرح واضح کی گئی ہے کہ بیت اللہ کی تولیت میں کفار قریش کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ خاص مسلمانوں کا حق ہے " مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ (17)إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (18): مشرکین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے منتظم بنے رہیں جب کہ وہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال اکارت ہیں اور یہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کی مسجدوں کے منتظم تو وہی ہوسکتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی چیز سے نہ ڈریں۔ انہی لوگوں کے متعلق توقع ہے کہ وہ بامراد ہوں " (توبہ :17-18)۔ یہی خاص پہلو ہے جس کے سبب سے عام کفار کے برخلاف کفار قریش کے لیے یہ حکم ہوا کہ جب تک یہ توبہ کر کے نماز نہ قائم کریں اور زکوۃ نہ دیں اس وقت تک ان کے لیے کوئی ڈھیل نہیں ہے " فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ : پس جب اشہر حرم گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں کہیں ان کو پاؤ اور ان کو پکڑو اور ان کو گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات میں بیٹھو پس اگر وہ توبہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو ان کی راہ چھوڑو، بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے " (توبۃ :5)۔ یہاں ہم ان اجمالی اشارات پر کفایت کرتے ہیں۔ سورة توبہ میں انشاء اللہ کفار قریش کے اس مسئلہ پر پوری تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے۔
Top