Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 169
اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
اِنَّمَا : صرف يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے بِالسُّوْٓءِ : برائی وَالْفَحْشَآءِ : اور بےحیائی وَاَنْ : اور یہ کہ تَقُوْلُوْا : تم کہو عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
وہ تو بس تمہیں برائی اور بےحیائی کی راہ سوجھائے گا اور اس بات کی کہ تم خدا کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
" امر " کے معنی : امر کے معنی جس طرح کسی بات کا حکم دینے کے ہیں اسی طرح کوئی بات سمجھانے یا اس کا مشورہ دینے کے بھی ہیں۔ مثلاً " امرتھم امری بمنعرج اللوی۔ فلم یستبینوا الرشد الاضحی الغد " (میں نے ان کو اپنے مشورے سے منعرج اللوی ہی میں آگاہ کردیا تھا لیکن میری بات ان کی سمجھ میں دوسرے دن کی صبح سے پہلے نہ آسکی) یا " اطعت الامریک بصرم حبلی " (تونے بالآخر انہی لوگوں کی بات سنی جو تجھے مجھ سے قطع تعلق کا مشورہ دینے والے تھے)۔۔ " سوء " کا لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے جسمانی اور مادی نقصان اور گزدن بھی مراد ہوتا ہے مثلاً " فانقلبوا بنعمۃ اللہ وفضل لم یمسسہم سوء " (ال عمران :173) ، اور وہ خدا کی نعمت اور اس کا فضل لے کر لوٹے اور ان کو کوئی گزند نہ پہنچا۔ اس سے بیماری بھی مراد ہوتی ہے۔ مثلاً وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ (نمل :12) ، اور تم اپنا ہاتھ گریبان میں داخل کرو، وہ اس کے اندر سے سفید بر آمد ہوگا بغیر کسی مرض کے۔۔ اسی طرح یہ بدی اور گناہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، عام اس سے کہ بدی چھوٹی ہو یا بڑی مثلاً إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ (نساء :17) ، اللہ کے ذمہ ان کی توبہ کی قبولیت ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کر بیٹھیں پھر فوراً توبہ کرلیں۔۔ " فحشاء " کا مفہوم : فحشاء کا لفظ کھلی ہوئی بدکاری اور بےحیائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں اس سے زنا، لواطت اور ننگے ہو کر طواف کرنے کی قسم کی برائیوں کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ جب سوء اور فحشاء دونوں لفظ ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں تو یہ نہ صرف تمام چھوٹی بڑی برائیوں ہی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں بلکہ ہر طرح کے مالی جسمانی اور عقلی نقصانات و مصائب بھی ان کے تحت آجاتے ہیں۔۔ قول علی اللہ اور افتراء علی اللہ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی خدا کی طرف کوئی جھوٹی اور من گھڑت بات منسوب کرنا۔ مثلاً یہ کہنا کہ خدا نے فلاں اور فلاں کو اپنا ساجھی اور شریک قرر دیا ہے یا بغیر کسی سند کے یہ دعوے کرنا کہ خدا نے فلاں فلاں قسم کی چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں۔۔ شیطان کے امر کرنے سے یہاں مطلب اس کا ان باتوں کے لیے دلوں میں وسوسہ اندازی کرنا اور نگاہوں میں ان کو کھبانا ہے۔ شیطان کے مفہوم میں اس کی ساری ذریت شامل ہے، عام اس سے کہ وہ جانت میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ یہی مضمون ایک دوسری جگہ اس طرح بیان ہوا ہے " وَلا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ "، اور وہ چیزیں نہ کھاؤ جن پر خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے، بیشک شیاطین اپنے دوستوں کی طرف القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم مشرکوں میں سے ہوجاؤ گے (انعام :121)۔۔ یہاں ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ رحمان اور شیطان کے احکام میں ایسا واضح اور محسوس عقلی و فطری امتیاز موجود ہے کہ کسی سلیم الفطرت اور خوش ذوق انسان کو ان کے درمیان کوئی گھپلا پیش نہیں آسکتا۔ اوپر والی آیت میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں کھانے پینے کے لیے جائز ٹھہرائی ہیں وہ اپنے اثرات، اپنے ظاہر، اور اپنے باطن کے لحاظ سے پاکیزہ، خوشگوار، معتدل، صحت بخش اور روح پرور ہیں، اس کے بالمقابل شیطان جن باتوں کو اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے وہ سب کی سب روح، عقل جسم اور اخلاق کو نقصان پہنچانے والی اور بےحیائی و بدکاری کی راہیں کھولنے والی ہیں۔ اس واضح فرق کے بعد بھی جو لوگ شیطان کی پیروی اختیار کریں ان کی شامت ہی ہے۔
Top