Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ١۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور اخْتِلَافِ : بدلتے رہنا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَالْفُلْكِ : اور کشتی الَّتِىْ : جو کہ تَجْرِيْ : بہتی ہے فِي : میں الْبَحْرِ : سمندر بِمَا : ساتھ جو يَنْفَعُ : نفع دیتی ہے النَّاسَ : لوگ وَمَآ : اور جو کہ اَنْزَلَ : اتارا اللّٰهُ : اللہ مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مِنْ : سے مَّآءٍ : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا : اس کے مرنے کے بعد وَبَثَّ : اور پھیلائے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ : ہر قسم دَآبَّةٍ : جانور وَّتَصْرِيْفِ : اور بدلنا الرِّيٰحِ : ہوائیں وَالسَّحَابِ : اور بادل الْمُسَخَّرِ : تابع بَيْنَ : درمیان السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : ( جو) عقل والے
بیشک آسمانوں اور زمین کی خلقت، رات اور دن کی آمد و شد، اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کے لیے سمندر میں نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے بادلوں سے اتارا اور جس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشی اور جس سے اس میں ہر قسم کے جاندار پھیلائے اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان مامور ہیں، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں
آسمان و زمین کی نشانیوں کی طرف ایک جامع اشارہ : آسمان اور زمین کی خلقت سے مراد ان کی وہ پیدائش بھی ہے جس سے خالق کی عظیم قدرت واضح ہوتی ہے، ان کی وہ ساخت بھی ہے جس سے اس کی بےمثال کاریگری اور حیرت میں ڈال دینے والی حکمت کی شہادت ملتی ہے، ان کی وہ نفع رسانی اور فیض بخشی بھی ہے جس سے خالق کی رحمانیت اور رحیمیت اور پروردگاری ثابت ہوتی ہے، وہ مقصدیت بھی ہے جو گواہی دیتی ہے کہ اتنی حکمتوں سے یہ معمور کارخانہ عبث اور بےغایت نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم مقصد ہے جس کے ظہور کے لیے ایک دن مقرر ہے، اور ان کی وہ موافقت اور ساز گاری بھی ہے جو ثابت کرتی ہے کہ آسمان اور زمین دونوں ایک ہی خالق کے ارادہ سے ظہور میں آئے ہیں اور اسی کی اسکیم اور اسی کے حکم کے تحت چل رہے ہیں، ان کے اندر کسی اور کے ارادہ اور تصرف کو کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ مختلف پہلو قرآن مجید میں گوناگوں اسلوبوں سے واضح کیے گئے ہیں جن کی تفصیلات آگے آئیں گی۔ اختلافِ لیل و نہار سے مراد ایک تو رات اور دن کی یکے بعد دیگرے، پورے نظام، پوری پابندی اوقات اور کامل تسلسل کے ساتھ آمد و شد ہے، جیسا کہ فرمایا ہے وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا (الفرقان :62) ، اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا، ان لوگوں کے لیے جو یاد دہانی حاصل کرنا چاہیں یا خدا کے شکر گزار بننا چاہیں۔ دوسرے ان کا وہ اختلاف بھی ہے جو ان کے مزاج، ان کی فطرت، ان کی شکل و صورت اور ان کے ظاہری اور باطنی اثرات و نتائج میں ہے لیکن اس اختلاف و تضاد کے باوصف یہ دونوں اس کائنات کی مجموعی خدمت و بہبود میں شب و روز سر گرم ہیں۔ فُلک کے معنی کشتی کے ہیں۔ یہ لفظ اسی شکل میں واحد، جمع، مذکر، مونث سب کے لیے آتا ہے۔ مونث تو اس آیت ہی میں استعمال ہوا ہے۔ مذکر کے لیے قرآن مجید میں فی الفلک المشحون کی ترکیب موجود ہے۔ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ سے مراد وہ سامان تجارت و معیشت ہے جس کے حمل و نقل کا یہ کشتیاں ذریعہ بنتی ہیں اور جس سے معاشرت اور تمدن کی توسیع و ترقی کی نہایت وسیع راہیں کھلی ہیں۔ زمین کی موت اور اس کی زندگی سے مراد اس کا خشک اور بےآب وگیاہ ہوجانے کے بعد از سرِ نو سبزوں اور پودوں سے لہلہا اٹھنا ہے۔ دَابَّةٍ کا معروف استعمال تو زمین پر چلنے پھرنے والوں جانوروں ہی کے لیے ہے بلکہ زیادہ نمایاں طور پر ان جانوروں کے لیے جو سواری یا بار برداری کے کام آتے ہیں، لیکن یہ اس معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس معنی میں ہم جاندار کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے پہلے معنی کے لحاظ سے پرندے اس کے مفہوم سے خارج ہیں، صرف زمین پر چلنے پھرنے یا رینگنے والے جانور ہی اس سے مراد ہوتے ہیں۔ چناچہ قرآن مجید نے بعض مقامات پر پرندوں کو اس لفظ کے مفہوم سے الگ رکھا ہے، مثلاً فرمایا ہے وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأرْضِ وَلا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ (انعام :38) ، اور نہیں ہے زمین پر چلنے والا کوئی جانور اور نہ اپنے بازوؤں سے اڑنے والا کوئی پرندہ۔ لیکن جب یہ اپنے دوسرے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے تحت سارے ہی جاندار آجاتے ہیں، عام اس سے کہ وہ چرند ہیں پرند بلکہ اس صورت میں یہ بنی نوع انسان کو بھی اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے اس مفہوم کے لیے قرآن مجید سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ فرمایا ہے وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ (فاطر :45) اور اگر اللہ لوگوں کو ان کی بدعملیوں پر فورًا سزا دینے والا ہوتا تو زمین پشت پر ایک جاندار کو بھی جیتا نہ چھوڑتا۔ اس آیت میں " دابۃ " کا لفظ تمام جانداروں کے لیے استعمال ہوا ہے، عام اس سے کہ وہ چرند و پرند ہوں یا انسان۔ وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ (عنکبوت :60) اور کتنے جاندار ہیں جو اپنے ساتھ اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کو بھی ورزی دیتا ہے اور تم کو بھی۔ اس آیت میں " دابہ " کا لفظ چرند و پرند سب پر حاوی ہے۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأرْضِ إِلا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا (ھود :6) اور زمین میں کوئی جاندار نہیں ہے مگر اللہ ہی کے ذمہ ہے اس کی روزی۔ اس آیت میں بھی یہ لفظ اپنے سیع معنی ہی میں استعمال ہوا ہے۔ ہمارے نزدیک آیت زیر بحث میں بھی یہ لفظ جاندار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چناچہ ہم نے ترجمہ اسی مفہوم کے لحاظ سے کیا ہے۔ " تصریف ریاح " سے مراد ہواؤں کی گردش ہے۔ ان کی اس گردش کے مختلف پہلو خود قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ کبھی یہ اپنے کندھوں پر پانی سے بوجھل بادلوں کو لاد کر لاتی ہیں اور زمین کو جل تھل کردیتی ہیں، کبھی یہ انہی بادلوں کو اس طرح اڑا کرلے جاتی ہیں کہ کہیں ان کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔ ایک قوم کے لیے یہ عذاب بن کر نمودار ہوتی ہیں، دوسری قوم کے لیے رحمت بن کر۔ انہی کی گردش سے فرعون اور اس کی قوم غرق دریا ہوئی اور انہی کے تصرف نے موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کو اسی دریا سے پار کرایا۔ پھر کبھی یہ مرطوب بن کر فصلوں کو نشوونما دیتی، ان کو اگاتی اور پروان چڑھاتی ہیں، کبھی گرم اور خشک ہو کر ان کو پکاتی اور تیار کرتی ہیں، کبھی یہ خزاں بن کر پتوں کو مرجھاتی اور چمن کو اجاڑتی ہیں، کبھی بہار بن کر ایک ایک ٹہنی اور ایک ایک شاخ کو پھولوں اور کلیوں سے لاد دیتی ہیں۔ ان کے بھیس مختلف ہیں اور ہر بھیس میں نئی آن اور نئی شان ہے اور جو شان بھی ہے وہ ان کے مصرف (خدا) کی حکمت وقدرت اور اس کی رحمت و ربوبیت کا ایک عظیم نشان ہے۔ " تسخیر " کا مفہوم : تسخیر کے معنی ہیں کسی کو مطیع و فرمانبردار بنا کر بلا کسی اجرت و معاوضہ کے کسی کی خدمت میں لگا دینا۔ بادلوں کے آسمان و زمین کے دریان مسخر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ یہ خدا کے امر و حکم کے تحت بالکل مقہور و مجبور ہر لمحہ و ہر آن، بالکل تیار کھڑے ہیں کہ جب، اور جس جگہ کے لیے اور جس شکل میں ان کو حکم ہو وہ اس حکم کی کی تعمیل کریں۔ یہ مسخر خدا کے ہاتھ میں ہیں اور وہی اپنی ربوبیت اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے تحت ان کو رحمت یا عذاب کی جس شکل میں چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔ قرآن میں انسانوں کی نسبت کے ساتھ جب ابرو ہوا کی تسخیر کا ذکر آتا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ ابر یا ہوا یا سورج یا چاند انسان کے ہاتھ میں مسخر ہیں یا وہ ان کو مسخر کرسکتا ہے بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ پروردگار عالم نے ان چیزوں کو مسخر کر کے ان کو انسان کی نفع رسانی اور اس کی خدمت میں لگا دیا ہے اور یہ رات دن خدمت میں لگے رہنے کے باوجود انسان سے کسی اجرت یا صلہ کے طالب نہیں بنتے۔ اسی وجہ سے جہاں کہیں یہ مضمون بیان ہوا ہے وہاں سخر لکم آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے ان کو تمہاری نفع رسانی میں لگا دیا ہے، یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کو تمہارے تابع فرمان بنا دیا ہے۔ تابع فرمان یہ صرف خدا ہی کے ہیں۔ انسان زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرسکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ خدا نے ان چیزوں کو جن طبیعی قوانین کے ماتحت رکھا ہے ان میں سے بعض کو اپنی سائنس کے زور سے دریافت کرلے اور ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ لیکن ان تمام قوانین کا اصل سر رشتہ خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ انسان اس سر رشتہ پر کبھی قابو نہیں پا سکتا۔ مذکورہ بالا تمام چیزوں کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ان کے اندر عقل سے کام لینے والوں کے لیے آیات ہیں۔ آیت کے معنی، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں، نشانی اور علامت کے بھی آتے ہیں۔ جو چیز کسی چیز کی نشانی اور علامت ہوتی ہے، وہ اس کی دلیل ہوا کرتی ہے اس وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں مذکورہ چیزیں کس چیز پر اور کس نوعیت سے دلیل ہیں ؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ یہاں یہ تو فرمایا کہ ان چیزوں کے اندر دلیلیں ہیں لیکن یہ نہیں واضح فرمایا کہ یہ دلیلیں کن چیزوں پر ہیں اور ان کے دلیل ہونے کی شکل کیا ہے۔ نشانیوں کی طرف اشارہ کر کے، اصل سوال کو ہماری عقل و بصیرت پر چھوڑ دیا ہے کہ جو لوگ اپنی عقل اور سمجھ سے کام لیں گے وہ ان دلیلوں کو خود سمجھ جائیں گے۔ قرآن مجید نے یہ طریقہ اکثر مقامات میں اختیار کیا ہے اور مقصود اس سے ہماری عقل و فکر کی تربیت ہے کہ ہم آفاق وانفس کے اندر پھیلے ہوئے دلائل کو خود سمجھنے اور ان سے صحیح نتائج تک پہنچنے کے قابل ہوسکیں۔ قرآن کے اجمالی اشارات پر غور کرنے کا طریقہ : اس طرح کے مواقع میں قرآن پر غور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اجمالی اشارات کو خود قرآن کی روشنی میں تفصیل کا رنگ دینے کی کوشش کی جائے تاکہ واضح ہوسکے کہ پیش کردہ چیزوں سے اس دعوے پر کس طرح دلیل قائم ہوتی ہے۔ مثلاً دیکھیے آسمان و زمین کی خلقت سے، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، کہیں تو خدا کی قدرت و حکمت پر استدلال کیا ہے، کہیں اس کی پروردگار اور رحمانیت پر، کہیں ان کے بامقصد و باغایت ہونے پر استدلال کیا ہے اور کہیں ان کے توافق کے پہلو سے ان کے خالق ومالک کی توحید پر۔ اسی طرح رات اور دن کے اختلاف کو کہیں تو حق و باطل کی کشمکش اور غلبہ حق کی شہادت کے طور پر پیش کیا ہے، کہیں تمثیلی رنگ میں اس سے حیات بعد الموت پر استشہاد کیا ہے اور کہیں ان کے تضاد کے باوجود ان کے اندر ایک اعلی اور برتر مقصد کے لیے جو سازگاری اور موافقت پائی جاتی ہے اس کو اس حقیقت کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ نور اور ظلمت، روشنی اور تاریکی سب کا خالق ایک ہی ہے، وہی ان اضداد کو اپنی قدرت سے وجود میں لایا ہے اور وہی اپنی حکمت سے ان اضداد کے اندر سازگاری پیدا کرتا اور اس کائنات کی مجموعی خدمت کے لیے ان کو استعمال کرتا ہے۔ کشتی اور سمندر کا ذکر بھی قرآن میں مختلف پہلوؤں سے ہوا ہے۔ بعض جگہ تو اس سے انسانی زندگی کا جزرومد نمایاں کیا گیا ہے کہ انسان ذرا میں مغرور اور ذرا میں مایوس ہونے والی مخلوق ہے، زندگی کی کشتی ہمواری کے ساتھ رواں دواں رہے تو اس چیز کو وہ اپنی تدبیر و حکمت کا کرشمہ سمجھتا ہے اور اگر یہ کشتی حوادث کے تلاطم میں گھر جائے تو خدا خدا پکارنے لگتا ہے۔ پھر یہیں سے توحید کی انفسی دلیل پیش کی ہے کہ اصل معبود جس کی شہادت دل کی گہرائیوں میں موجود ہے وہ تو اللہ واحد ہی ہے، جس کا سہارا انسان اس وقت ڈھونڈھتا ہے جب دوسرے تمام سہاروں پر سے اس کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ بعض جگہ سمندر اور کشتی دونوں کے اختلاف و تضاد مزاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو نمایاں کیا ہے کہ کس طرح ایک بالا تر ہستی کا قانون قدرت و حکمت سمندر اور کشتی میں سازگاری پیدا کردیتا ہے کہ انسان موجوں کے کندھوں پر سوار ہو کر ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم تک فتح و تسخیر کے دام بچھاتا اور تہذیب و تمدن کے علم گاڑتا پھرتا ہے۔ آسمان سے بارش کا ذکر بھی گوناگوں پہلوؤں سے ہوا ہے۔ ربوبیت اور رحمت کی شہادت تو یہ ہے ہی۔ حیات بعد الموت پر بھی اس کی شہادت نہایت واضح ہے اور اس کی طرف یہاں بھی اشارہ ہے۔ توحید پر بھی استدلال کیا ہے کہ جب آسمان سے اترنے والی بارش زمین کو زندگی اور روئیدگی بخشتی ہے تو یہ کس طرح باور کرتے ہو کہ زمین کے دیوتا الگ اور آسمان کے دیوتا الگ ہیں، اگر اس طرح ہر چیز کی خدائیاں الگ الگ تقسیم ہوتیں تو اس کا رخانہ کائنات میں ایسی حیرت انگیز سازگاری کس طرح پیدا ہوتی کہ آسمان سے پانی برستا اور زمین اس پانی کی بدولت اپنے تمام خزانے اگل دیتی اور پھر انسان اور چرند پرند سب ان سے فائدہ اٹھاتے۔ بعض جگہ تمثیلی رنگ میں بارش اور اس کے اثرات کے اختلاف کو اس اختلاف کو نمایاں کرنے کے لیے پیش کیا ہے جو آسمانی ہدایت قبول کرنے کے معاملہ میں مختلف صلاحیتیں رکھنے والے انسانوں کے اندر نمایاں ہوتا ہے۔ ایک ہی بارش کہیں تو سبزے اور نباتات کی بانات بچھا دیتی ہے، کہیں خار و خس اور جھاڑیاں اگاتی ہے اور کہیں صاف چٹیل میدان چھوڑ دیتی ہے، اسی طرح فرمایا ہے کہ آسمانی ہدایت کی جو بارش نازل ہوتی ہے اس سے ساری طبیعتیں یکساں فیضیاب نہیں ہوتیں، بعض تو اس کے چھینٹے پڑتے ہی باغ و چمن کی طرح کھلکھلا اٹھتی ہیں، بعض شور زمینوں کے مانند مردہ ہی پڑی رہ جاتی ہیں اور بعض صرف ضلالت اور عداوت کی خار دار اور بِس بھری جھاڑیاں اگاتی ہیں۔ ہواؤں اور بادلوں کی گردش کو بھی مختلف پہلوؤں سے پیش کیا گیا ہے۔ خدا کی رحمت اور پروردگاری کی شہادت تو ان سے واضح طور پر ملتی ہی ہے، خاص طور پر جو چیز قرآن میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوئی ہے وہ ہوا کے تصرفات کے پردہ میں خدا کی رحمت اور اس کے عذاب کا ظہور ہے جس سے بالآخر ایک روز جزا و سزا کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں قرآن نے اس پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اگر آسمان و زمین اور ابرو ہوا میں سے ہر ایک پر الگ الگ ارادوں کی کار فرمائی ہے تو ان مختلف عناصر کے اندر وہ ربط وتعلق کون پیدا کرتا ہے جس ربط وتعلق کے بغیر اس دنیا کا وجود اور بقا ناممکن ہے۔ یہاں ہمارا مقصود ان دلائل کی تفصیل نہیں ہے جو اوپر کے اجمالات کے اندر مضمر ہیں۔ ان دلائل کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا یا بیان کرنا ان مواقع ہی پر زیادہ موزوں رہے گا جن میں قرآن نے ان کی وضاحت کی ہے۔ یہاں ان اشارات سے ہمارا مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ قرآن مجید نے یہ جو فرمایا ہے کہ ان چیزوں کے اندر آیات یعنی دلیلیں اور نشانیاں ہیں تو یہ بات یونہی نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت اجمال اور تفصیل کی مختلف شکلوں میں قرآن میں بیان ہوئی ہے اس وجہ سے ان اجمالات کو تفصیل کے آئینہ میں دیکھنا چاہیے۔ اس آیت کے مطالب پر ایک خصوصی نظر : یہ تو اس آیت پر ایک عمومی نظر ہوئی۔ اب ہم اس پر ایک خصوصی نظر اس دعوے کو پیش نظر رکھ کر ڈالیں گے جو یہاں عنوان زیر بحث ہے۔ اوپر یہ بات گزر چکی ہے کہ یہاں اصل چیز جو زیر بحث ہے وہ توحید ہے اور یہ آیت اس توحید کی دلیل کے طور پر وارد ہوئی ہے اس وجہ سے اس آیت کے تمام مذکورہ حقائق و لطائف سب ضمنی ہیں، نظم کلام کے پہلو سے اصلی چیز جو واضح کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں توحید کی دلیل کیا ہے۔ چناچہ اب ہم اختصار کے ساتھ اس کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس آیت پر اگر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ اس میں شروع سے لے کر آخر تک اس کائنات کے متقابل بلکہ متضاد اجزا و عناصر کا حوالہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے اس حیرت انگیز اتحاد و توافق اور ان کی اس بےمثال بہم آمیزی و سازگاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو ان کے اندر اس کائنات کی مجموعی خدمت کے یلے پائی جاتی ہے۔ آسمان کے ساتھ زمین، رات کے ساتھ دن، کشتی کے ساتھ دریا۔ بظاہر دیکھیے تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ضدین کی نسبت رکھتے ہیں لیکن ذرا گہری نگاہ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اگر یہ ایک طرف ضدین کی نسبت رکھتے ہیں تو دوسری طرف اس کائنات کی خانہ آبادی کے نقطہ نظر سے آپس میں زوجین کا سا ربط و اتصال بھی رکھتے ہیں۔ یہ آسمان اور اس کے چمکتے ہوئے سورج اور چاند نہ ہوں تو ہماری زمین کی ساری رونقیں اور بہاریں ختم ہوجائیں بلک اس کی ہستی ہی نابود ہوجائے۔ اسی طرح یہ زمین نہ ہو تو کون بتا سکتا ہے کہ اس فضائے لامتناہی کے بیشمار ستاروں اور سیاروں میں سے کس کس کا گھر اجڑ کے رہ جائے۔ علی ہذا القیاس، ہماری اور ہماری طرح اس دنیا کے تمام جانداروں کی زندگی جس طرح دن کی حرارت، تمازت، روشنی اور نشاط انگیزی کی محتاج ہے، اسی طرح شب کی خنکی، لطافت، سکون بخشی اور خواب آوری کی بھی محتاج ہے۔ یہ دونوں مل کر اس گھر کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سمندر کو دیکھیے اس کا پھیلاؤ کتنا ہوشربا اور ناپیدا کنار ہے اور اس کی موجیں کتنی مہیب اور ہولناک ہیں، لیکن دیکھیے اس سرکشی و طغیانی کے باجود کس طرح اس نے عین اپنے سینہ پر سے ہماری کشتیوں اور ہمارے جہازوں کے لیے نہایت ہموار مصفا سڑکیں نکال رکھی ہیں جن پر ہمارے جہاز دن رات دوڑ رہے ہیں اور تجارت و معیشت، تمدن و معاشرت اور علوم فنون ہر چیز میں مشرق اور مغرب کے ڈانڈے ملائے ہوئے ہیں۔ آگے آسمان سے بارش اور اس بارش اور اس بارش سے زمین کے از سر نو باغ و بہار اور معمور آباد ہوجانے کا ذکر ہے۔ غور کیجیے کہاں زمین ہے اور کہاں آسمان۔ لیکن اس دوری کے باوجود دونوں میں کس درجہ گہرا ربط و اتصال ہے۔ زمین اپنے اندر روئیدگی اور زندگی کے خزانے چھپائے ہوئے ہے لیکن یہ سارے خزانے اس وقت تک مدفون ہی رہتے ہیں جب تک آسمان سے بارش نازل ہو کر ان کو ابھار دیتی۔ اسی طرح کا رشتہ بادلوں اور ہواؤں کے درمیان ہے۔ بادلوں کے جہاز لدے پھندے اپنے بادبان کھولے کھڑے ہیں لیکن یہ اپنی جگہ سے ایک انچ سرک نہیں سکتے جب تک ہوائیں ان کو دھکے دے کر ان کی جگہ سے نہ ہلائیں اور ان کو ان کی مقرر کی ہوئی سمتوں میں آگے نہ بڑھائیں، یہ ہوائیں ہی ہیں جو ان کو مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں ہنکائے پھرتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کو غائب کردیتی ہیں اور جب چاہتی ہیں ان کو افق پر نمودار کردیتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ غور و تدبر کی نگاہ اس دنیا کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ کیا یہ اضداد اور متناقضات کی ایک رزم گاہ ہے جس میں مختلف ارادوں اور قوتوں کی کشمکش برپا ہے یا ایک ہی حکیم و مدبر ارادہ ان سب پر حاکم و فرمانروا ہے جو ان تمام عناصر مختلفہ کو اپنی حکمت کے تحت ایک خاص نظام اور ایک مجموعی مقصد کے لیے استعمال کر رہا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کائنات کے مشاہدہ سے یہ دوسری ہی بات ثابت ہوتی ہے۔ پھر مزید غور کیجیے تو یہیں سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے وہ کہ یہ دنیا آپ سے آپ وجود میں نہیں آئی ہے اور نہ اس کے اندر جو ارتقا ہوا ہے وہ آپ سے آپ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے عناصر مختلفہ میں ایک بالا تر مقصد کے لیے وہ ساز گاری کہاں سے پیدا ہوتی جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں موجود ہے۔ غور کیجیے تو یہ ایک ہی حقیقت ایک طرف شرک کے تمام امکانات کا سدباب کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ ڈارونزم کے بھی تمام وساوس کی جڑ کاٹ رہی ہے۔
Top