Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 160
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو تَابُوْا : جنہوں نے توبہ کی وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی وَبَيَّنُوْا : اور واضح کیا فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں اَتُوْبُ : میں معاف کرتا ہوں عَلَيْهِمْ : انہیں وَاَنَا : اور میں التَّوَّابُ : معاف کرنے والا الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
البتہ جن لوگوں نے توبہ کرلی اور اصلاح کرلی اور واضح طور پر بیان کردیا تو ان کی توبہ میں قبول کروں گا۔ میں بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں
توبہ کے لیے شرط : یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس لعنت سے محفوط رہیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس حق پوشی کے جرم سے توبہ کرلیں۔ اس توبہ کے ساتھ ـاصلحواـ کی شرط لگائی ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ توبہ اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک آدمی اس غلطی کی اصلاح نہ کرے جس کا مرتکب ہو رہا ہے۔ مزید شرط اس کے ساتھ“ بینوا ”کی لگائی۔ یہ موقع کی مناسبت سے ہے اور سابق الذکر“ اصلحوا ”کی وضاحت کر رہی ہے۔ یعنی آخری نبی سے متعلق تورات کے جن حقائق و بینات کو انہوں چھپایا ہے اس کو ظاہر کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ تک کم از کم یہود کے خواص اور علماء ان تحریفات سے بیخبر نہیں تھے جو حق پوشی کی سازش کے تحت کی گئی تھیں یا کی جا رہی تھیں۔ اس کا ثبوت اس امر سے بھی بہم پہنچ رہا ہے کہ یہود کے اہل علم میں سے جو لوگ نعمت اسلام سے بہرہ یاب ہوئے انہوں نے اس قسم کے بہت سے حقائق سے پردے اٹھائے بھی۔ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ میں توبہ کے ساتھ علی کا صلہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اس کے اندر رحمت کا مضمون بھی پوشیدہ ہے۔ یعنی ایسے لوگوں کی توبہ میں قبول کرتا اور ان پر رحم کرتا ہوں۔ لفظ کی اس مخفی حقیقت کواَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ کہہ کر واضح فرما دیا ہے۔
Top