Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
صابرین کی ڈھال : یہ صابرین کی صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ آزمائشوں کا مقابلہ بد دلی اور پست ہمتی کے ساتھ نہیں کرتے بلکہ خندہ پیشانی اور عزم و استقلال کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہاں جو ان کا یہ قول نقل ہوا ہے، یہ درحقیقت ان کے اس عقیدے کا اظہار ہے جس کی چٹان پر صبر و استقامت کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ اس عقیدے کا ایک جزو تو یہ ہے کہ آدمی اس بات پر ایمان رکھے کہ وہ اس دنیا میں اللہ ہی کا اور اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کا دوسرا جزو یہ ہے کہ مرنے کے بعد اس کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ جو شخص ان دو حقیقتوں پر مضبوط ایمان رکھتا ہے کوئی بڑی سے بڑی مصیبت بھی اس کے قدم کو جادہ حق سے ہٹا نہیں سکتی۔ جب ہم اس دنیا میں خدا ہی کے بھیجے ہوئے آئے ہیں، اسی کے لیے ہمارا مرنا اور جینا ہے اور مرنے کے بعد وہی ہے جس کی طرف ہمیں جانا ہے تو پھر اس کی خاطر تو ہم ہر چیز سے منہ موڑ سکتے ہیں لیکن وہ کون سی طاقت ہو سکتی ہے جو ہمری رخ کو اس سے موڑ دے۔ یہی کلمہ صابرین کی ڈھال اور سپر ہے۔ اس پر وہ مصیبت کے ہر وار کو روکتے ہیں۔ اس میں اللہ کی طرف جو تفویض و سپردگی ہے وہ سرفروشی اور جاں بازی کی سپردگی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ بندہ مومن جب وقت آجاتا ہے تو یہی نعرہ لگاتا ہوا اپنے رب کے لیے دریا اور پہاڑ سے بھی لڑ جاتا ہے۔ وہ سب کے قدم اکھاڑ دیتا ہے لیکن اس کے قدم کو کوئی چیز بھی اکھاڑ نہیں سکتی۔
Top