Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 145
وَ لَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰیَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ١ۚ وَ مَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ١ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ١ۙ اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَۘ
وَلَئِنْ : اور اگر أَتَيْتَ : آپ لائیں الَّذِيْنَ : جنہیں أُوْتُوا الْكِتَابَ : دی گئی کتاب (اہل کتاب) بِكُلِّ : تمام اٰيَةٍ : نشانیاں مَّا تَبِعُوْا : وہ پیروی نہ کرینگے قِبْلَتَکَ : آپ کا قبلہ وَمَا : اور نہ أَنْتَ : آپ بِتَابِعٍ : پیروی کرنے والے قِبْلَتَهُمْ : ان کا قبلہ وَمَا : اور نہیں بَعْضُهُمْ : ان سے کوئی بِتَابِعٍ : پیروی کرنے والا قِبْلَةَ : قبلہ بَعْضٍ : کسی وَلَئِنِ : اور اگر اتَّبَعْتَ : آپ نے پیروی کی أَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات مِنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَا جَآءَکَ : کہ آچکا آپ کے پاس مِنَ الْعِلْمِ : علم إِنَّکَ : بیشک آپ إِذًا : اب لَّمِنَ : سے الظَّالِمِيْنَ : بےانصاف
اور اگر تم اہل کتاب کے سامنے ہر قسم کی نشانیاں بھی پیش کر دو تو بھی یہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے بن سکتے اور نہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے والے بن سکتے۔ اور اگر تم اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے ان کی خواہشوں کی پیروی کروگے تو بلاشبہ تم ظالموں میں سے ہوجاؤگے۔
ایک التفات : یہ آیت بطور التفات کے آنحضرت ﷺ کو تسلی دے رہی ہے کہ قبلہ کے معاملہ میں اہل کتاب کا یہ رویہ کسی شک و شبہ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ اوپر واضح ہوا، دیدہ و دانستہ محض ضد وعناد اور حسد کی بنا پر ہے۔ اس وجہ سے اگر تم ان کو دنیا جہان کے تمام معجزے بھی دکھا دو جب بھی یہ تمہارے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں۔ ان کو مطمئن کرنے والی کوئی چیز ہوسکتی ہے تو دلائل و معجزات نہیں بلکہ یہ کہ تم خود ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے بن جاؤ لیکن حق کے اچھی طرح واضح ہوچکنے کے بعد تمہارے لیے اس کا کوئی امکان باقی نہیں رہا کہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرسکو۔ پھر یہ بات بھی واضح فرما دی کہ یہ ضدم ضد کا رویہ کچھ تمہارے ہی ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ یہود و نصاریٰ خود ایک دوسرے کے قبلہ کی بھی پیروی نہیں کرسکتے۔ اب یہ مشرق و مغرب کے جس جھگڑے میں پڑگئے ہیں یہ جھگڑا ختم ہونے والا نہیں اور جب ایک ہی قبلہ کی پیروی کے مدعی آپس میں متحد نہیں ہوسکتے تو تمہارے قبلہ کی پیروی بھلا یہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ علم وحی کے آجانے کے بعد اگر تم ان کی خواہشوں کی پیروی کرو گے تو تم بھی ظالموں میں سے بن جاؤ گے۔ یہ ایک نوع کی تہدید ہے جس کا ظاہراً خطاب تو آنحضرت ﷺ سے ہے لیکن اس کا رخ در حقیقت یہود و نصاری کی طرف ہے۔ یہاں“ العلم ”سے مراد علم حقیقی ہے جو وحی کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے اور اھواء سے مراد اہل کتاب کی بدعتیں ہیں۔ ان دونوں لفظوں کا مفہوم آیت 120 کے تحت ہم واضح کرچکے ہیں۔
Top