Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 131
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا لَهُ : اس کو رَبُّهُ : اس کا رب اَسْلِمْ : تو سر جھکا دے قَالَ : اس نے کہا اَسْلَمْتُ : میں نے سر جھکا دیا لِرَبِّ : رب کے لئے الْعَالَمِينَ : تمام جہان
جب کہ اس کے رب نے اس کو حکم دیا کہ اپنے آپ کو حوالہ کردے۔ اس نے کہا میں نے اپنے آپ کو پروردگارِ عالم کے حوالہ کیا
‘ اسلام ’ کا مفہوم : اسلام کے معنی اپنے آپ کو پورے طور پر خدا کی مرضی اور اس کے احکام کے حوالہ کردینا ہے۔ یہاں ہمارے نزدیک اس سے بیٹے کی قربانی کی طرف اشارہ ہے۔ یوں تو وہ تمام امتحانات، جن سے وہ گزارے گئے، ان کے اسلام کی جانچ ہی کے لیے تھے، گویا ہر امتحان زبان حال سے ان کے سامنے ‘ اسلم ’ ہی کا مطالبہ رکھنے کے لیے نمودار ہوا لیکن خاص طور پر حضرت اسمعیل ؑ کی قربانی کا حکم جس میں کامیابی کے بعد وہ برگزیدگی اور امامت کی عزت سے نوازے گئے ہیں، کامل سپردگی اور کامل حوالگی کا ایک ایسا مطالبہ تھا جس کی تعبیر کے لیے سب سے زیادہ جامع اور حقیقت افروز لفظ اگر کوئی ہوسکتا تھا تو ‘ اسلم ’ ہی کا لفظ ہوسکتا تھا۔ یہ لفظ واقعہ قربانی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے قرآن مجید میں بعد دوسرے مقامات میں بھی آیا ہے مثلا فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ۔ پس جب باپ اور بیٹے دونوں نے اپنے آپ کو اپنے رب کے حوالے کردیا اور ابراہیم نے اسماعیل کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا۔ (صافات :103)۔ یہاں اس واقعہ کی طرف اسلام کے لفظ سے اشارہ کر کے قرآن نے کئی حقیقتیں واضح کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ ت عالیٰ نے دنیا اور آخرت دونوں میں جو برگزیدگی بخشی وہ، جیسا کہ آیت 124 میں اشارہ ہوچکا ہے، ان کی ان جان بازیوں اور قربانیوں کا صلہ ہے جو انہوں نے رب کی رضا طلبی کی راہ میں کیں۔ یہ عطمت ان کو مفت میں نہیں حاصل ہوئی جس طرح یہود اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کو کامل سپردگی اور کامل حوالگی یعنی اسلام کا حکم ہوا تھا اور انہوں نے اپنے قول و عمل سے اسی اسلام کا مظاہرہ کیا نہ کہ یہودیت یا نصرانیت کا جیسا کہ یہود یا نصاری گمان کرتے ہیں۔ تیسری یہ کہ اسلام کی اصل روح اپنے آپ کو اپنے رب کے حوالہ کردینا ہے یہاں تک کہ کوئی عزیز سے عزیز چیز بھی بندے کے نزدیک خدا سے زیادہ عزیز نہ رہ جائے۔
Top