Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 112
بَلٰى١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠   ۧ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ : جس اَسْلَمَ : جھکادیا وَجْهَهٗ : اپنا چہرہ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے وَهُوْ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکوکار فَلَهٗٓ : تو اس کے لئے اَجْرُهُ ۔ عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کا اجر۔ اپنے رب کے پاس وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہاں بلا شبہ جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیا اور وہ ٹھیک طرح سے عمل کرنے والا ہے تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ نہ ان کو کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
نجات کی اصلی راہ : یعنی نجات یافتہ اور مستحق جنت ہونے کے لیے یہودی یا نصرانی ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ آدمی ایک تو مسلم بنے دوسرے یہ کہ محسن بنے۔ اسلام کے معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو پورے طور پر خدا کے حوالہ کردے۔ اس کے نبیوں اور رسولوں میں کوئی تفریق کیے بغیر اپنی پوری زندگی کو اس کی شریعت کے تابع کردے۔ احسان کا مفہوم یہ ہے کہ شریعت کے احکام کی تعمیل پورے خلوص، پوری دیانت داری اور کامل راستبازی کے ساتھ کرے۔ جو لوگ اس طرح خدا کی بندگی اور اس کی اطاعت کا حق ادا کریں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے، ایسے لوگوں کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا، نہ کوئی غم، یہی تمام انبیاء اور تمام آسمانی صحیفوں کی تعلیم ہے اور یہی عقل اور فطرت کا تقاضا ہے۔ یہ پورا مضمون اسی سورة کی آیات 78 تا 81 میں تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔ وہاں ہم نے اس کے مختلف پہلوؤں پر وضاحت کی ساتھ بحث کی ہے۔
Top