Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 76
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : قریب تھا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ : کہ تمہیں پھسلا ہی دیں مِنَ : سے الْاَرْضِ : زمین (مکہ) لِيُخْرِجُوْكَ : تاکہ وہ تمہیں نکال دیں مِنْهَا : یہاں سے وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا يَلْبَثُوْنَ : وہ نہ ٹھہرپاتے خِلٰفَكَ : تمہارے پیچھے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا
اور بیشک یہ اس سرزمین سے تمہارے قدم اکھاڑ دینے کے درپے ہیں تاکہ یہ تم کو یہاں سے نکال چھوڑیں۔ اور اگر ایسا ہوا تو تمہارے بعد یہ بھی ٹکنے نہ پائیں گے
تفسیر آیات 76 تا 77: وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا۔ سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيْلًا۔ استفزاز کے معنی گھبرا دینے، پریشان کردینے اور اکھاڑ دینے کے ہیں اور " الارض " سے مراد یہاں سرزمین مکہ ہے۔ مخالفین جب سمجھوتے کی کسی تجویز کے بروئے کار آنے سے بھی ماویس ہوگئے تو ظاہر ہے کہ ان کی مخالفت جو پہلے بھی کچھ کم نہ تھی اس مایوسی کے بعد دوچند ہوگئی۔ انہوں نے اپنا ایری چوٹی کا زور صرف کردیا کہ آپ کے قدم سرزمین مکہ سے اکھاڑ دیں کہ آپ یہاں سے نکلنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو انہوں نے یہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا تو تمہارے بعد یہ بھی زیادہ ٹکنے نہ پائئیں گے۔ تم سے پہلے جو ہم نے رسول بھیجے ان کی ہجرت کے بعد جو حشر ان کی قوموں کا ہوا وہی حشر لازماً ان کا بھی ہوگا۔ اس معاملے میں اللہ کی جو سنت پہلے سے چلی آرہی ہے کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان کے معاملے میں وہ بدل جائے۔ رسول کی ہجرت تک قوم مامون ہوتی ہے۔ ہم دوسرے مقام میں یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ رسول چونکہ اتمام حجت کا کامل ذریعہ ہوتا ہے، نیز وہ جب تک قوم میں رہتا ہے اس کے لیے استغفار کرتا رہتا ہے اس وجہ سے اس کی موجودی تک قوم کو اللہ کے عذاب سے امان حاصل رہتی ہے لیکن جب قوم کی روش سے تنگ آ کر وہ ہجرت پر مجبور ہوجاتا ہے تو قوم ایک بالکل جسد بےروح ہو کر رہ جاتی ہے اور اتمام حجت کا مرحلہ ختم ہوچکتا ہے۔ اس کے بعد یا تو اللہ کا کوئی عذاب نمودار ہوتا ہے جو غلاظت کے اس ڈھیر سے زمین کو صساف کردیتا ہے یا اہل ایمان کی تلوار بےنیاز ہوتی ہے اور وہ ان کا خاتمہ کردیتی ہے۔ اہل مکہ کے اشرار کے معاملے میں یہی دوسری صورت پیش آئی۔ " سُنَّةَ " میرے نزدیک " یوم " وغیرہ کی طرف فعل محذوف سے منصوب ہے یعنی " اذکر سنۃ من " ہم نے جو رسول تم سے پہلے بھیجے ان کے اور ان کی قوموں کے معاملے میں ہماری جو سنت رہی ہے اس کو یاد رکھو اس اسلوب میں فی الجملہ تخصیص ذکر کا پہلو مضمر ہوتا ہے اور یہ براہ راست اصل چیز کو نگاہ کے سامنے کردیتا ہے
Top