Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 73
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ١ۖۗ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : وہ قریب تھا لَيَفْتِنُوْنَكَ : کہ تمہیں بچلا دیں عَنِ : سے الَّذِيْٓ : وہ لوگ جو اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتَفْتَرِيَ : تاکہ تم جھوٹ باندھو عَلَيْنَا : ہم پر غَيْرَهٗ : اس کے سوا وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّاتَّخَذُوْكَ : البتہ وہ تمہیں بنا لیتے خَلِيْلًا : دوست
اور بیشک قریب تھا کہ تم کو فتنوں میں ڈال کر اس چیز سے ہٹا دیں جو ہم نے تم پر وحی کی ہے تاکہ تم اس سے مختلف ہم پر افترا کر کے پیش کرو، اور تب وہ تم کو اپنا گاڑھا دوست بنا لیتے
آگے کا مضمون۔ آیات 73 تا 87: آنحضرت ﷺ کو موقف حق پر جمے رہنے کی تاکید : آگے نبی ﷺ کو یہ تاکید ہے کہ مخالفین کی تمام مخالفتوں کے علی الرغم اپنے موقف حق پر جمے رہو۔ یہ کتنا ہی زور لگائیں کہ تم قرآن میں ان کے حسب منشا کچھ ترمیم کردو تو وہ تمہارے دوست اور ساتھی بن جائیں گے۔ لیکن تم کو ایک شوشہ کے برابر بھی اس میں ترمیم و تغییر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ تمہاری مخالفت میں یہ زیادہ سے زیادہ جو کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ تم کو یہ اتنا تنگ کریں کہ تم یہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہوجاؤ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر تمہارے بعد ان کو بھی اس شہر میں زیادہ ٹکنا نصیب نہ ہوگا۔ رسولوں کی ہجرت کے بعد ان کی قوموں کا جو حشر ہوا ہے وہی حشر ان کا بھی ہوگا۔ اس کے حصول صبر و استقامت کے لیے نماز خصوصاً تہجد کی تاکید ہوئی اور قرب ہجرت کی دعا تعلیم فرمائی گئی اور ہجرت کے ساتھ جو فتح وابستہ ہے اس کی طرف اشارہ فرمایا گیا۔ آخر میں مخالفین کی بدبختی پر اظہار افسوس ہے کہ قرآن جیسی چیز جو سرتاسر شفا اور رحمت ہے، ان لوگوں کی شامت اعمال سے ان کے لیے موجب وبال بن گئی۔ آیات کی تلاوت کیجیے۔ تفسیر آیت 73 تا 75: وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهٗ ڰ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا۔ وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًا۔ اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيْرًا۔ " یفتنونک " یہاں " یصرفونک " یا اس کے ہم معنی کسی لفظ پر متضمن ہے جس کی طرف عن اشارہ کر رہا ہے مطلب یہ ہے کہ مخالفین نے اتنا زور باندھا تھا کہ قریب تھا کہ تم کو فتنوں اور آزمائشوں میں ڈال کر تم کو موقف حق سے ہٹا دیں لیکن اللہ نے تم کو اس فتنہ سے بچا لیا۔ کفار کی دعوت مصالحت کا جواب : رسولوں کی دعوت میں ایک مرحلہ یہ بھی آیا ہے کہ مخالفین نے جب یہ محسوس کرلیا ہے کہ اب یہ دعوت جڑ پکڑ چکی ہے، صرف اندھی بہری مخالفت سے اس کا ہلانا ممکن نہیں رہا تو اس وقت انہوں نے یہ سیاسی چال چلی ہے کہ کوئی تجویز باہمی سمجھوتے کی پیش کی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی دعوت میں بھی یہ مرحلہ پیش آیا۔ مخالفین نے جب دیکھا لیا کہ اب یہ دعوت دلوں میں گھر کر رہی ہے تو ان کی بعض جماعتوں نے، روایات میں قبیلہ بنی ثقیف وغیرہ کا نام بھی آیا ہے، آنحضرت ﷺ کے آگے یہ تجویز پیش کی کہ اگر فلاں فلاں احکام میں ترمیم کردیں تو ہم یہ دعوت قبول کیے لیتے ہیں، پھر ہم اور آپ گہرے دوست بن کے رہیں گے۔ یہ مرحلہ آنحضرت ﷺ کے لیے بڑا ہی سخت تھا۔ ایک طرف اللہ کے اتارے ہوئے احکام تھے جن میں ایک نقطہ کے برابر بھی آپ ترمیم کرنے کے مجاز نہ تھے، دوسری طرف آپ اپنی قوم کے ایمان کے انتہائی حریص تھے اور کسی ایسے موقعے کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے تھے جس سے قوم کے ایمان کی راہ پر بڑھنے کی کچھ امید بندھتی ہو۔ اس صورت حال نے آنحضرت ﷺ کو تذبذب میں مبتلا کردیا۔ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ کے الفاظ اسی تذبذب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نازک مرحلے میں اپنے پیغمبر کی دستگیری فرمائی اور آپ کو تردد و تذبذب سے نکال کر صحیح شاہراہ پر کھڑا کردیا۔ " نبی کی عصمت " کا مفہوم : یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ نبی کے معصوم ہونے کے معنی یہ نہیں کہ اس کو کوئی تذبذب کی حالت پیش نہیں آتی یا کوئی غلط میلان اس کے دل میں خطور نہیں کرتا بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہی کہ اول تو اس کا میلان کبھی جانب نفس میں نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ جانب خیر میں ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ جانب خیر میں بھی اگر وہ کوئی ایسا قدم اٹھاتا نظر آتا ہے جو صحیح نہیں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کو بچا لیتا ہے اور صحیح سمت میں اس کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔ خطاب نبی سے، عتاب کفار پر : اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ۔۔۔ الایہ، ظاہر الفاظ کے اعتبار سے خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ سے ہے لیکن اس میں جو زجر و عتاب ہے اس کا رخ سمجھوتے کی تجویز لانے والوں کی طرف ہے تاکہ وہ متنبہ ہوجائیں کہ جب اس قسم کے کسی اقدام پر خود پیغمبر کو دنیا اور آخرت میں دوگنے عذاب کی دھمکی ہے تو پھر اس کے بروئے کار آنے کا کیا امکان رہا۔ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ میں ایک مضاف محذوف ہے یعنی ضعف عذاب الحیوۃ و ضعف عذاب الممات، اور یہ دوگنے عذاب کی دھمکی رسول کے درجے اور مت بے کے اعتبار سے ان کی گفرت بھی ہوتی ہے اگر وہ کوئی غلطی کرتے ہیں۔
Top