Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 58
وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ قَرْيَةٍ : کوئی بستی اِلَّا : مگر نَحْنُ : ہم مُهْلِكُوْهَا : اسے ہلاک کرنے والے قَبْلَ : پہلے يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن اَوْ : یا مُعَذِّبُوْهَا : اسے عذاب دینے والے عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت كَانَ : ہے ذٰلِكَ : یہ فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مَسْطُوْرًا : لکھا ہوا
اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جس کو قیامت سے پہلے ہم ہلاک نہ کر چھوڑیں یا اس کو کوئی سخت عذاب نہ دیں۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے
آگے کا مضمون۔ آیات 58 تا 60: عذاب کے باب میں سنت الٰہی : پیچھے آیت 11 میں یہ بات گزر چکی ہے کہ پیغمبر ﷺ جب مشرکین کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہیں تو وہ جھٹ عذاب کا مطالبہ شروع کردیتے کہ جس عذاب کی روز دھمکی سنا رہے ہو اس کو لا کر دکھاتے کیوں نہیں۔ اب یہاں اوپر والی آیات میں اس کا ذکر آیا تو اس باب میں جو سنت الٰہی ہے اس کی وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی طلب پر عذاب کی نشانیاں اگر نہیں دکھاتا تو کیوں نہیں دکھاتا۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا۔ " قریۃ " سے مراد یہاں، جیسا کہ ہم پیچے اشارہ کر آئے ہیں، وہ مرکزی بستیاں ہیں جو کسی قوم کے اعیان و مترفین کا مرکز ہوتی ہیں۔ مطالبۂ نشانی عذاب کا جواب : یہ کفار قریش کے مطالبۂ نشانی عذاب کا جواب دیا جا رہا ہے کہ یہ عذاب کے لیے جلدی نہ مچائیں، ہر بستی جو کفر و طغیان کی راہ اختیار کرے گی وہ دو حالتوں میں سے کسی ایک سے لازماً دوچار ہو کے رہے گی۔ یا تو ہم اس کو ہلاک کرچھوڑیں گے یا اس کو سخت عذاب دیں گے۔ یہاں بات اجمال کے ساتھ فرمائی گئی ہے لیکن اسی سورة میں پیچھے وہ سنت الٰہی بھی بیان ہوگئی ہے جس کے تحت یہ بات واقع ہوتی ہے۔ آیت 16 پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ " وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا : اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کردینا چاہتے ہ ہیں تو اس کے خوش حالوں کو ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ اس میں نافرمانیاں کرتے ہیں، پھر ان پر بات پوری ہوجاتی ہے پھر ہم اس کو یک قلم نیست و نابود کرکے رکھ دیتے ہیں "۔ یوں تو یہ سنت الٰہی ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی لیکن کفار قریش کے لیے یہ مسئلہ اور بھی زیادہ سنگین اس وجہ سے بن گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں انہی کے اندر سے ایک رسول بھیج دیا تھا۔ رسول اتمام حجت کا آخری ذریعہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم رسول کی تکذیب کردیتی ہے تو ایک خاص مدت تک مہلت پانے کے بعد وہ لازماً تباہ کردی جاتی ہے۔ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا، یعنی یہ بات نوشۂ الٰہی یا خدا کے دفتر میں مرقوم ہے۔ اس نے یہ لکھ رکھا ہے کہ فلاں قوم ان ان جرائم کی اپنے ارادہ و اختیار سے مرتکب ہوگی اور ان کی پاداش میں وہ یوں اپنے کیفر کردار کو پہنچے گی۔
Top