Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 40
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ اِنَاثًا١ؕ اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اَفَاَصْفٰىكُمْ : کیا تمہیں چن لیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِالْبَنِيْنَ : بیٹوں کے لیے وَاتَّخَذَ : اور بنا لیا مِنَ : سے۔ کو الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اِنَاثًا : بیٹیاں اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَقُوْلُوْنَ : البتہ کہتے ہو (بولتے ہو) قَوْلًا عَظِيْمًا : بڑا بول
کیا تمہارے رب نے تمہارے لیے تو بیٹے مخصوص کیے اور اپنے لیے فرشتوں میں سے بیٹیاں بنا لیں۔ یہ تو تم بڑی ہی سنگین بات کہتے ہو
آگے کا مضمون۔ آیات 40 تا 57:۔ کفار کی قرآن سے بیزاری کا اصلی سبب : آگے کفار قریش کی قرآن سے بیزاری کے اصلی سبب پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ یہ لوگ چونکہ اپنے مزعومہ معبودوں کو چھوڑنے اور آخرت تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں اس وجہ سے قرآن اور پیغمبر سے چڑتے ہیں۔ اسی ضمن میں بطور جملہ معترضہ مسلمانوں کو یہ ہدایت بھی فرما دی گئی کہ تم دعوت میں حکیمانہ طریقہ اختیار کرو۔ مخالفین کے رویے سے متاثر ہو کر زبان سے کوئی ایسا کلمہ نہ نکال بیٹھو جو ان بدکے ہوئے لوگوں کے لیے مزید وحشت کا سبب بن جائے۔ اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِيْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنَاثًا ۭاِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِيْمًا۔ تردید شرک نئے اسلوب سے : اوپر کے مجموعہ آیات کو شرک کی تردید پر ختم فرمایا تھا، اسی مضمون کو ایک نئے اسلوب سے پھر لے لیا۔ فرمایا کہ کیا تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹوں کے لیے مخصوص کرلیا اور خود اپنے لیے فرشتوں میں سے بیٹیاں بنا لیں۔ یہ واضح رہے کہ فرشتوں کو مشرکین عرب خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور اس وہم کے ساتھ ان کی پرستش کرتے تھے کہ یہ اپنے باپ سے ان کے لیے سفارش کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کی اس دوہری حماقت پر توجہ دلائی ہے کہ اول تو کسی کو خدا کا شریک ٹھہرانا ہی حماقت ہے۔ پھر ستم بالائے ستم تم نے یہ کیا ہے کہ خدا کے لیے بیٹیاں منتخب کی ہیں جن کو خود اپنے لیے سخت ناپسند کرتے ہو۔ انَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِيْمًا۔ یعنی یہ تو تم بڑی ہی بھونڈی اور نہایت ہی سنگین بات کہتے ہو۔ یہ صرف حماقت ہی نہیں بلکہ حماقت در حماقت ہے کہ اپنے رب کے لیے اس چیز کا انتخاب کرتے ہو جس کو اپنے لیے گوارا کرنے پر آمادہ نہیں۔ گویا خدا کو تم نے خود اپنے سے بھی گرادیا۔
Top