Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 37
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا١ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا
وَلَا تَمْشِ : اور نہ چل فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَرَحًا : اکڑ کر (اتراتا ہوا) اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَخْرِقَ : ہرگز نہ چیر ڈالے گا الْاَرْضَ : زمین وَلَنْ تَبْلُغَ : اور ہرگز نہ پہنچے گا الْجِبَالَ : پہاڑ طُوْلًا : بلندی
اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور پہاڑوں کے طول کو پہنچ سکتے ہو ،
وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۔ غرور وتکبر کی ممانعت : " مرح " کے معنی اکڑ کر اور اترا کر چلنے کے ہیں۔ جو شخص اکڑ کر اور اترا کر چلتا ہے وہ زمین پر پاؤں مارتا ہوا اور گردن کو اٹھا کر چلتا ہے۔ یہ متکبرین اور مغروروں کی چال ہے۔ فرمایا کہ یہ مغروروں اور متکبروں کی چال نہ چلو۔ یاد رکھو کہ تم کتنا ہی زمین پر پاؤں مارتے ہوئے چلو لیکن تم خدا کی زمین کو پھاڑ نہیں سکتے، اسی طرح تم کتنا ہی سینہ تان کر اور گردن اور سر کو اونچا کر کے چلو۔ لیکن تم پہاڑوں کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتے۔ مطلب یہ کہ جس خدا کی قدرت کی یہ شانیں دیکھتے ہو کہ اس نے تمہارے پاؤں کے نیچے یہ طویل و عریض زمین بچھا دی جس کے اور تمہاری حیثیت ایک بھنگے اور چیونٹی کی بھی نہیں اور جس نے یہ فلک بوس پہاڑ تمہارے آگے کھڑے کردیے جن کے سامنے تم ایک گلہری کی بھی حیثیت نہیں رکھتے اس کی زمین پر اکڑنے اور اترانے کے کیا معنی ؟ اپنی حیثیت پہچانو اور خدا کی عظمت اور اس کے جلال کے آگے ہمیشہ سرفگندہ رہو۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ آدمی کی یہ حالت اس کے باطن پر عکس ڈالتی ہے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی اس شخص کے دل میں خدا کی عظمت وقدرت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جن کے دلوں کے اندر خدا کی عظمت وقدرت کا تصور سمایا ہوا ہوتا ہے۔ ان پر تواضع اور فروتنی کی حالت طاری رہتی ہے۔ وہ اکڑنے اور اترانے کے بجائے سر جھکا کر دبے پاؤں چلتے ہیں۔
Top