Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 101
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دیں مُوْسٰي : موسیٰ تِسْعَ : نو اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : کھلی نشانیاں فَسْئَلْ : پو پوچھ تو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اِذْ : جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا فَقَالَ : تو کہا لَهٗ : اس کو فِرْعَوْنُ : فرعون اِنِّىْ : بیشک میں لَاَظُنُّكَ : تجھ پر گمان کرتا ہوں يٰمُوْسٰي : اے موسیٰ مَسْحُوْرًا : جادو کیا گیا
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی ہوئی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے پوچھ لو جب کہ وہ ان کے پاس آیا تو فرعون نے اس سے کہا کہ اے موسیٰ میں تو تم کو ایک سحر زدہ آدمی سمجھتا ہوں
مطالبۂ معجزات کا جواب : وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لأظُنُّكَ يَا مُوسَى مَسْحُورًا۔ اوپر آیت 90 سے 93 تک ان معجزات کا ذکر گزر چکا ہے جن کا قریش مطالبہ کرتے تھے۔ یہ اسی مطالبہ کا جواب ہے کہ ایمان و ہدایت کی راہ معجزات سے نصیب نہیں ہوتی۔ ہم نے موسیٰ کو فرعون کی طلب پر نو نہایت کھلے کھلے معجزے دیے لیکن فرعون نے یہ سارے معجزے دیکھ کر کہا تو یہ کہا کہ اے موسیٰ میں تو تم کو ایک سحر زدہ آدمی سمجھتا ہوں۔ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے جس کے اثر سے تم اس قسم کی بہکی بہکی باتیں میرے سامنے کرنے لگے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اسی طرح تمہیں بھی اگر تمہاری طلب کے مطابق معجزے دکھا دیے گئے تو تم بھی کوئی نہ کوئی بات بنا لو گے۔ حضرت موسیٰ کی مثال : فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ ، میں ایک لطیف تلمیح ہے۔ وہ یہ کہ اس مرحلے میں بنی اسرائیل اسلام کی مخالفت کی مہم میں پوری طرح شریک ہوگئے تھے اور قریش یہ معجزات کے مطالبے زیادہ تر انہی کی شہ پر کرتے تھے۔ وہ قریش کو یہ سکھاتے تھے کہ ہمارے پیغمبر نے تو یہ معجزے دکھائے تو یہ اگر نبوت کے مدعی ہیں تو یہ بھی اسی طرح کے معجزے دکھائیں۔ ان کی اسی حرکت کے سبب سے قرآن نے انہی کو گواہ بنا کر پیش کیا کہ ان کے نبی نے معجزے دیکھائے تو سہی لیکن انہی سے پوچھو کہ یہ سارے معجزے دکھانے کا نتیجہ کیا نکلا ؟ اگر نتیجہ یہی نکلا کہ فرعون اور اس کی قوم غرق ہو کے رہی تو آخر یہ راستہ وہ قریش کو کیوں دکھاتے ہیں۔
Top