Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 41
قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ
قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ صِرَاطٌ : راستہ عَلَيَّ : مجھ تک مُسْتَقِيْمٌ : سیدھا
فرمایا یہ ایک سیدھی راہ ہے جو مجھ تک پہنچانے والی ہے
قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ توحید کا راستہ، جس سے بنی آدم کو گمراہ کرنے کی تو دھمکی دے رہا ہے، کوئی کج پیچ والا راستہ نہیں ہے بلکہ یہ مجھ تک پہنچا دینے والی نہایت سیدھی اور ہموار راہ ہے۔ میرے جو بندے مجھ تک پہنچا چاہیں گے اگر وہ اس راہ کو اختیار کریں گے تو یہ راہ خود بخود ان کو میرے آستانے پر لا ڈالے گی، اس میں کج روی اور گمراہی کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ صرف شامت زدہ ہی ہوں گے جو اس سیدھی راہ کو چھوڑ کر کوئی کج پیچ والی راہ اختیار کریں گے۔ یہاں صراط کے بعد عَلَيَّ جو آیا ہے۔ یہ عربی زبان کے مخصوص اسلوب کے مطابق ہے۔ عربی زبان میں کسی سیدھے راستہ کی تعریف کے لیے یہ اسلوب بیان موجود ہے کہ یہ راستہ ایسا سیدھا ہے کہ راہرو کو خود منزل پر لا ڈالتا ہے۔ کلام عرب کے شواہد نقل کرنے میں غیر ضروری طوالت ہوگی اس وجہ سے ہم صرف قرآن کے بعض نظائر پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ سورة ہود میں ہے " انی توکلت علی اللہ ربی و ربکم۔ ما من دابۃ الا ھو اخذ بناصیتہا، ان ربی علی صراط مستقیم : میں نے اللہ پر، جو میرا بھی خداوند ہے اور تمہارا بھی بھروسہ کیا، ہر جاندار کی پیشانی اس کی گرفت میں ہے۔ بےشک، میرا رب، سیدھی راہ پر ہے "۔ " بیشک میرا رب سیدھی راہ پر ہے " یعنی اس کو پانے اور اس تک پہنچنے کے لیے مجھے بہت سی کج پیچ والی وادیاں قطع نہیں کرنی ہیں، اس کے پانے اور اس تک پہنچنے کے لیے یہ کافی ہے کہ میں توحید کی شاہراہ پر قائم و استوار اور اس کی بندگی میں سرگرم رہوں اور اس پر بھروسہ رکھوں کہ وہ ہر مشکل میں میری مدد فرمائے۔ اسی طرح سورة نحل آیت 9 میں ہے۔ " وعلی اللہ قصد السبیل ومنہا جائر۔ ولو شاء لہداکم اجمعین : اور اللہ تک پہنچانے والی سیدھی راہ ہے اور بعض راہیں بالکل کج ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر کردیتا "۔
Top