Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 39
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب بِمَآ : جیسا کہ اَغْوَيْتَنِيْ : تونے مجھے گمراہ کیا لَاُزَيِّنَنَّ : تو میں ضرور آراستہ کروں گا لَهُمْ : ان کے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَاُغْوِيَنَّهُمْ : اور میں ضرور گمراہ کروں گا ان کو اَجْمَعِيْنَ : سب
بولا، اے رب، چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں زمین میں دنیا کو ان کی نگاہوں میں کھباؤں گا اور سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا
تفسیر آیات 39 تا 40: قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لأزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأرْضِ وَلأغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (39)إِلا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (40)۔ " اغوا " کے معنی گمراہ کرنے کے ہیں۔ چونکہ ابلیس آدم کو سجدہ نہ کرنے کے معاملے میں اپنے آپ کو بجانب حق خیال کرتا تھا اس وجہ سے اس نے نہایت گستاخانہ انداز میں فعل " اغوا " کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کیا۔ مطلب یہ کہ اگر میں اس حکم کی عدم تعمیل کے باعث گمراہ ٹھہرا تو اس میں میرا قصور نہیں ہے بلکہ یہ حکم ہی ایسا تھا کہ میں اس کی تعمیل نہیں کرسکتا تھا اس وجہ سے اگر میں اس کے سبب سے گمراہ ہوا تو اس پر تو ہی نے مجھے مجبور کیا۔ لأزَيِّنَنَّ لَهُمْ فی الارض، یعنی میں دنیا اور اس کی مرغوبات کو انسان کی نگاہوں میں کھباؤں گا اور وہ ان کی ملمع اور محبت میں اس طرح پھنس جائے گا کہ نہ اسے یہ یاد رہے گا کہ وہ مسجود ملائک ہے، نہ اس کو کچھ آخرت کا ہوش رہے گا اور نہ وہ تیری توحید پر قائم رہے۔ گا۔ وَلأغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ، یعنی ان کو توحید کی سیدھی راہ سے ہٹا کر شرک کی وادیوں میں بھٹکا دوں گا۔ ابلیس کا قول سورة اعراف آیت 16 تا 17 میں یوں نقل ہوا ہے۔ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لأقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (17): وہ بولا کہ چونکہ تو نے مجھے گمراہ کردیا اس وجہ سے میں تیری سیدھی راہ پر ان کی گھات میں بیٹھوں گا، ان کے آگے سے، ان کے پیچھے اور ان کے دہنے اور ان کے بائیں سے ان پر حملہ کروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے اغوا کا خاص ہدف توحید ہے۔ اس کی ساری فتنہ آرائیاں اس واحد غرض کے لیے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں آدم کی اولاد کو خدا تک پہنچانے والی سیدھی راہ سے بھٹکا کر شرک کی گمراہی میں پھنسا دے۔ إِلا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ، یعنی میری ان فتنہ سامانیوں سے تیرے بندوں میں سے اگر کچھ خوش قسمت سے بچ رہیں گے تو وہی بچ رہیں گے جن کو تو نے اپنی توحید اور یاد آخرت پر قائم رہنے کے لیے خاص کرلیا ہو۔ باقی سب میرے فتراک کے ضلالت کے نخچیر ہو کے رہیں گے۔
Top