Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 28
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّكَ : تیرا رب لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اِنِّىْ : بیشک میں خَالِقٌ : بنانے والا بَشَرًا : انسان مِّنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ : سے حَمَاٍ : سیاہ گارا مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں
تفسیر آیات 28 تا 29: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ (28) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (29) اب وہ اصل مضمون بیان ہو رہا ہے جس کی تمہید کے طور پر اوپر والی بات بیان ہوئی ہے۔ ہم آدم و ابلیس کے اس ماجرے پر بقرہ آیات 33 تا 38 اور اعراف آیات 11 تا 25 کے تحت پوری وضاحت کے ساتھ بحث کرچکے ہیں۔ یہاں اس کے اعادے میں طوالت ہوگی۔ البتہ ان امور کی طرف ہم یہاں بھی اشارہ کریں گے جو سلسلہ کلام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ انسانی شرف کی بنیاد : ان آیات سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم آدم کی تخلیق سے پہلے ہی دیا تھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سجدہ کے اس حکم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وضاحت بھی تھی کہ یہ سجدہ اس وقت کیا جائے جب میں آدم کا تسویہ یعنی اس کو تمام قوتوں اور صلاحیتوں سے آراستہ کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح پھونک لوں۔ اس سے یہ بات از خود واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کو جو کچھ شرف و فضیلت حاصل ہے وہ تمام تر ان قوتوں اور صلاحیتوں اور اس روح یزدانی کی بدولت ہے جو اس کو ودیعت ہوئی ہیں۔ اگر انسان ان کی حفاظت کرے اور ان کو ترقی دے تو وہ مسجود ملائک ہے اور اگر ان کو برباد کردے تو پھر وہ نہ صرف ایک حیوان بلکہ حیوانات سے بھی فرو تر ہے۔ نَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے اندر ایک نور یزدانی بھی ودیعت ہوا ہے جو اس کے تمام روحانی کمالات کا سرچشمہ ہے اور اسی کے واسطہ سے وہ خدا سے جڑتا ہے بشرطیکہ وہ اس کی پوری پوری حفاظت کرے اگر وہ اس کو ضائع کردے تو وہ ایک بےچراغ گھر ہے جس کے اندر صرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔
Top