Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور بیشک ہم ہی نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا
آگے کا مضمون۔ آیات 26 تا 48: آدم و ابلیس کے ماجرے کا حوالہ : آگے کی آیات میں آدم اور ابلیس کے ابتدائی ماجرے کا حوالہ دیا ہے۔ مقصود اس حوالہ سے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ آج جو لوگ ایمان نہیں لا رہے ہیں اور نہایت غرور وتکبر کے ساتھ خدا کے رسول کی تکذیب کررہے ہیں ان کے کفر اور تکبر کا اصل سبب یہ نہیں ہے کہ رسولوں کی باتوں کی صداقت ثابت کرنے کے لیے دلیلیں موجود نہیں ہیں یا ان کی طلب کے مطابق ان کو معجزے نہیں دکھائے جا رہے ہیں بلکہ یہ ذریات ابلیس کے اس فریب میں آئے ہوئے لوگ ہیں جس کی دھمکی ابلیس نے اس وقت دی تھی جب اس کو آدم کے سجدہ کا حکم ہوا تھا۔ اس وقت اس نے سجدہ سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مجھے مہلت دی جائے تو میں آدم کی ساری ذریت کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا، صرف وہی لوگ میرے دام فریب سے بچ سکیں گے جو خدا کے مخلص بندے ہوں گے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو اس کی مہلت دی اور فرمایا کہ جا ان میں سے جو تیرے فریب میں آئیں ان کو تو اپنے دام فریب میں پھنسا، لیکن میرے مخلص بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ۔ صلصال خشک مٹی کو کہتے ہیں جو خشک ہو کر کھنکھانانے لگ جائے۔ حَمَإٍ مَسْنُونٍ سیاہ اور بو دار مٹی کو کہتے ہیں۔ زمین کے تمام جانداروں کی زندگی کا آغاز پانی اور کیچڑ ہی سے ہوا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے جن کے لیے یہ چاہا کہ وہ خشکی میں رہیں بسیں ان کے لیے خشک زمین مہیا فرمائی اور اس خشک زمین میں ان کے اندر کی وہ قوتیں اور صلاحیتیں ابھریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر ودیعت فرمائی تھیں اور جو اپنے نشوونما کے لیے زمین کے مخصوص ماحول کی محتاج تھیں۔ انسان بھی اس کلیہ سے مستثنی نہیں ہے۔ وہ بھی پانی، کیچڑ اور خشک زمین ہی کی ایک مخلوق ہے۔ البتہ اس کو دوسرے جانداروں کے مقابل میں، جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے، یہ امتیاز حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تسویہ فرمایا یعنی ان تمام قوتوں اور صلاحیتوں سے اس کو آراستہ کیا جو اس کے مقصد تخلیق کی تکمیل کے لیے ضروری تھیں۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ صرف یہی نہیں فرمایا کہ انسان کو مٹی سے پیدا کی، جیسا کہ دوسرے مقامات میں ہے، بلکہ اس کے ساتھ حما مسنون کا اضافہ بھی ہے۔ اس سے مقصود زندگی کے نقطہ آغاز کی طرف اشارہ بھی کرنا اور اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا بھی کہ جس کی زندگی کا آغاز ایسے حقیر عنصر سے ہوا ہے اس کے لیے یہ کسی طرح زیبا نہیں کہ وہ اس قادر وقیوم سے اکڑے جس نے اس کو اتنے حقیر عنصر سے پیدا کیا اور پھر اس کو نہایت اعلی صلاحیتوں سے آراستہ کیا۔
Top