Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 21
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُهٗ١٘ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر عِنْدَنَا : ہمارے پاس خَزَآئِنُهٗ : اس کے خزانے وَمَا : اور نہیں نُنَزِّلُهٗٓ : ہم اس کو اتارتے اِلَّا : مگر بِقَدَرٍ : اندازہ سے مَّعْلُوْمٍ : معلوم۔ مناسب
اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں لیکن ہم اس کو ایک معین اندازے کے ساتھ ہی اتارتے ہیں
توازن و تناسب کی طرف اشارہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ۔ یہ جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، اس توازن و تناسب کی طرف اشارہ ہے جو خالق کائنات کے تمام کاموں میں موجود ہے اور جس کے اوپر ہی اس دنیا کے قیام و بقا کا انحصار ہے۔ خدا کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس کے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں لیکن اس دنیا کا بقا مقتضی ہے کہ ہر چیز ایک تناسب کے ساتھ ظہور میں آئے اس وجہ سے وہ ہر چیز اتنی ہی مقدار میں بھیجتا ہے جتنی مقدار میں اس کا بھیجنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کوئی چیز ذرا اپنی حد مطلوب سے زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ زیادتی بھی جب ہوتی ہے خدا ہی کے حکم سے ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بڑی بڑی آفتیں برپا ہوجاتی ہیں۔ یہ ساری باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ دنیا نہ تو کسی اتفاق حادثہ کے طور پر ظہور میں آگئی ہیں جیسا کہ ملاحدہ و منکرین سمجھتے ہیں اور نہ یہ مختلف دیویوں اور دیوتاؤں کی بازیگا ہے جیسا کہ مشرکین نے سمجھا ہے۔ چناچہ سورة فرقان کی آیت 2 میں اجزائے کائنات کے اسی تناسب کو تقدیر کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس تقدیر کو شرک کی نفی اور توحید کی ایک واضح دلیل کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی۔
Top