Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور ہم نے آسمان میں برج بنائے دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس کو مزین کیا
آگے کا مضمون۔ آیات 16 تا 25: آفاق وانفس کی نشانیوں کی طرف اشارہ : آگے ان نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو آفاق وانفس اور آسمان و زمین کے گوشہ گوشہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان باتوں کی تصدیق کرتی ہیں جن پیغمبر دعوت دے رے ہیں۔ مقصد ان نشانیوں کے ذکر سے یہ ہے کہ قدرت کے معجزاتے کے ہوتے کسی نئے معجزے کی ضرورت کہا باقی رہی، دیکھنے والی آنکھیں سوچنے والے دماغ ہوں تو ایک ایک پتہ معرفت کردگار کا دفتر ہے تفسیر آیات 16 تا 18:۔ وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ (16) وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ (17)۔ اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ۔ آسمانی نشانیوں کی طرف اشارہ : " برج " کے معنی قلعہ اور محل کے ہیں۔ یہاں اس سے مراد وہ آسمانی قلعے ہیں جو خدا نے آسمانوں میں بنائے ہیں، جن میں اس کے ملائکہ اور کروبیوں کی فوجیں برابر مامور رہتی اور ان حدود اور دائروں کی نگرانی کرتی ہیں جن سے آگے بڑھنے کی اجازت نہ شیاطین انس کو ہے اور نہ شیاطین جن کو اور اگر کوئی شیطان ملاء اعلی کی باتوں کی کچھ سن گن لینے کی کو ششش کرتا ہے تو ایک دمکتا شہاب اس کا تعاقب کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک قلعہ کی برجیوں پر مامور سپاہی دشمن کے آدمیوں پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں، کسی اجنبی کو اپنے حدود کے اندر لانگنے کا موقع نہیں دیتے، اسی طرح خدا کے مامور ملائکہ ان شیاطین جن کو شہاب ثاقب کا نشانہ بناتے ہیں جو ان کے حدود میں ٹوہ لگانے کے لیے در اندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے ضمناً اس کہانت کی بالکل بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے جس کا عہد جاہلیت میں بڑا رواج تھا اور جس کی آڑ میں کاہن لوگ غیب دانی کے دعوے کرکے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بناتے تھے۔ قرآن نے یہ واضح کردیا کہ ملاء اعلی کے دائروں تک شیاطین کو رسائی حاصل نہیں اور اگر وہ چوری چھپے کان لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ شہاب کی سنگباری کا ہدف بنتے ہیں۔ اسی پہلو سے یہاں شیطان کی صفت " رجیم " آئی ہے اس لیے کہ رجیم کے معنی سنگسار کردہ کے ہیں اور لفظ " کل " اس حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے کہ بڑے سے بڑا شیطان بھی بہرحال خدا کے محفوظ کیے ہوئے حدود میں داخل نہیں ہوسکتا۔ جس چیز کو عرف عام میں ستاروں کا ٹوٹنا کہتے ہیں موجودہ سائنس اس کی جو توجیہ بھی کرے اس سے قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت کی تردید نہیں ہوتی اس لیے کہ سائنس کی رسائی کسی چیز کے صرف ظاہری اسباب و علل ہی تک ہے۔ قدر الٰہی ان شہابوں سے کیا کیا کام لیتی ہے بتانا سائنس کے بس سے باہر ہے۔ اس کو صرف اللہ تعالیٰ ہی بتا سکتا ہے اور اس کی باتوں کو جاننے کا واحد ذریعہ وحی الٰہی اور قرآن ہے۔ یہ مضمون یہاں ضمناً آگیا ہے آیت کا اصل مقصود، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، آسمان و زمین کی ان نشانیوں کی طرف توجہ دلانا ہے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں سے ہر نشانی ان باتوں کی تصدیق کر رہی ہے جن کی قرآن اور پیغمبر خبر دے رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے ان کے لیے تو آسمان بھی نشانیوں سے معمور ہے اور زمین بھی لیکن جن کی آنکھیں بند ہیں وہ ان نشانیوں سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے معجزوں کے مطالبے کرتے ہیں اور اگر کوئی بڑے سے بڑا معجزہ بھی ان کو دکھا دیا جائے جب بھی، جیسا کہ اوپر اشارہ فرمایا، یہ اندھے ہی بنے رہیں گے۔ نظم کلام کے پہلو سے یہاں خاص توجہ وَّزَيَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِيْنَ کے ٹکڑے پر ہونی چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو اس کے لیے اس دنیا میں معجزات کی کمی نہیں ہے۔ وہ آسمان کو دیکھے۔ قدرت نے اس کو ستاروں، اور سیاروں، چاند اور سورج، شفق اور قوس و قزح اور دوسرے بیشمار گناگوں او بوقلموں عجائب سے کس طرح سنوارا ہے کہ جس طرف بھی نگاہ اٹھتی ہے انسان حیران و ششدر ہو کے رہ جاتا ہے اور پکار اٹھتا ہے کہ " ربنا ما خلقت ھذا باطلا " کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل اور کسی اتفاق حادثہ کے طور پر ظہور میں آجانے والی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکیم وعلیم اور ایک بےپناہ قدرت و حکمت کے مالک کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ اس کی قدرت و حکمت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ اس کو پیدا کرکے یوں ہی چھوڑ نہ دے بلکہ یہ لازم ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں وہ سب کو اکٹھا کرکے ان کے اعمال نیک و بد کا حساب کرے اور ان کے اعمال کے مطابق ان کو جزا یا سزا دے۔
Top