Siraj-ul-Bayan - Al-Israa : 74
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْئًا قَلِیْلًاۗۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ اَنْ : یہ کہ ثَبَّتْنٰكَ : ہم تمہیں ثابت قدم رکھتے لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ : البتہ تم جھکنے لگتے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف شَيْئًا : کچھ قَلِيْلًا : تھوڑا
اور اگر ہم تجھے ثابت قدم نہ رکھتے تو تو تو ان کی طرف تھوڑا سا جھک ہی جاتا (ف 1) ۔
پیغمبرانہ ذمہ داریاں : (ف 1) آیت کے شان نزول میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے ، اور بعض کے مکی اس اختلاف کی بنا پر واقعات بھی مختلف ہیں ، یہاں ثقیف والوں کا قصہ بیان کیا جاتا ہے ، کہ وہ چند رعایتوں اور خصوصیتوں کے طالب تھے ، جو اسلامی مساوات کے منافی تھیں ، اور مکہ میں حجر اسود کو قصہ یعنی مکہ والے حضور ﷺ کو مجبور کرتے تھے کہ جس طرح آپ اس پتھر کو بوسہ دیتے ہیں ، اسی طرح آپ ہمارے بتوں کا بھی احترام کریں ، تو کیا مضائقہ ہے ؟ اس آیت کا مفہوم بہرحال واضح ہے ، مخالفین چاہتے تھے کہ حضور ﷺ کو میٹھی میٹھی باتیں کر کے بہکا دیا جائے اور اسلام کی راہ اعتدال سے منحرف کردیا جائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم اس باب میں کامیاب نہیں ہو سکتے ، نبی اگر صرف انسانی ہو تو تمہارے حربے شاید کارگر ہو سکیں ، مگر وہ پیغمبر بھی ہوتا ہے یعنی نفس بشری کے ساتھ وہ نفس نبوی بھی رکھتا ہے اس لئے اس کو ورغلانا سخت دشوار ہے ، انبیاء کو خاص نوع کا ثبت و استقلال دیا جاتا ہے ، ان کا قلب جبرائیل کا مہبط ہوتا ہے ۔ ان کا دماغ مطلع انوار ہوتا ہے ۔ آیت کا یہ مقصد ہرگز نہیں ، کہ حضور ﷺ واقعی شرک کی جانب مائل ہوگئے تھے یا کفار کی حامی بھری تھی ، اور اللہ نے انہیں ان کے چنگل سے نکالا ، کیونکہ یہ معنی منصب نبوت کے منافی ہیں بلکہ غرض یہ ہے کہ مخالفین اسلام کی کوششیں یہی رہتی تھیں کہ وہ اپنے مقاصد مشومہ کی تکمیل کریں ، اور حضور ﷺ کو جادہ مستقیم سے منحرف کردیں ، اور بات یہ ہے کہ وہ ضروری کامیاب بھی ہوجاتے جس حد تک ان کی مساعی کا تعلق ہے ، اگر آپ پیغمبر نہ ہوتے اور آپ کو اللہ کی جانب سے تثبت الہی کی نعمت نہ دی جاتی ۔ (آیت) ” ضعف الحیوۃ وضعف الممات سے غرض یہ بتانا ہے کہ نبی کی پیغمبرانہ ذمہ دادی کس حد تک اہم ہوتی ہے ، اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عام اختلافی سطح سے بہرحال مند ہو ۔ حل لغات : کادوا : کاد ، قرب واقع کے لئے سے وقوع ضروری نہیں ۔
Top