Siraj-ul-Bayan - Al-Israa : 67
وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّاۤ اِیَّاهُ١ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا
وَاِذَا : اور جب مَسَّكُمُ : تمہیں چھوتی (پہنچتی) ہے الضُّرُّ : تکلیف فِي الْبَحْرِ : دریا میں ضَلَّ : گم ہوجاتے ہیں مَنْ : جو تَدْعُوْنَ : تم پکارتے تھے اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا فَلَمَّا : پھر جب نَجّٰىكُمْ : وہ تمہیں بچا لایا اِلَى الْبَرّ : خشکی کی طرف اَعْرَضْتُمْ : تم پھرجاتے ہیں وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان كَفُوْرًا : بڑا ناشکرا
اور جب دریا میں تم پر سختی آتی ہے تو خدا کے سوا ان سب کو جنہیں تم پکارا کرتے تھے بھول جاتے ہو ، پھر جب وہ تمہیں خشکی پر بچا لاتا ہے تو تم منہ موڑتے ہو ، اور انسان ناشکرا ہے (ف 1) ۔
فطرت انسانی کا اقرار : (ف 1) انسانی فطرت ہے کہ مصائب ومشکلات کے وقت دل کی تمام قوتیں بیدار ہوجاتی ہیں ، اور ایمان کے مخفی نقوش جو ہواہوس کے توغل کی وجہ سے دب جاتے ہیں ابھر آتے ہیں ، جب کہ مصیبت کے بادل مطلع قلب پر اضطراب و انتشار بن کر چھا جاتے ہیں ، توحید الہی کے عقدوں کو کھلنے کا موقع ملتا ہے ، اسرار منکشف ہوتے ہیں ، اور دل کی گہرائیوں میں یقین چمکنے لگتا ہے ، اس آیت میں اس کیف وحال کی جانب قرآن حکیم نے انسان کو متوجہ کیا ہے ، اور فرمایا ہے جب تم تکلیفوں اور مصیبتوں میں اللہ کو یاد کرتے ہو ، اور اس کے نام کے ساتھ تسلی وتسکین حاصل کرتے ہو تو عافیت وامن کی حالت میں کیوں اس حقیقت کو فراموش کردیتے ؟ کیا وہ خدا جس نے تمہیں مشکلات سے نجات دی ہے پھر تمہیں مشکلات میں نہیں پھنسا سکتا ؟ تم عذاب الہی سے اپنے تئیں محفوظ خیال کرتے ہو ؟ جس نے جنگل کی تاریکیوں میں تمہاری راہنمائی کی ، متلاطم سمندر سے تمہاری کشتی کو پار لگایا اور اگر وہ زمین میں تمہیں دھنسا دے تو یہ اس کی قدرت میں ہے ، اس طرح وہ تمہیں سمندر میں غرق بھی کرسکتا ہے ، یہ سب اس کی قدرت کا ادنی کرشمہ ہے ، جب انسانی بےچارگی اور بےبسی کا یہ عالم ہے تو پھر جو لمحہ عافیت سے گزر جائے اسے اللہ کی بخشش اور نوازش سمجھنا چاہئے کہ اس نے ہمیں مہلت دی ، اور ہمارے گناہوں کی ہمیں فی الفور سزا نہیں دی ۔
Top