Siraj-ul-Bayan - Al-Israa : 42
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا
قُلْ : کہ دیں آپ لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے مَعَهٗٓ : اسکے ساتھ اٰلِهَةٌ : اور معبود كَمَا : جیسے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِذًا : اس صورت میں لَّابْتَغَوْا : وہ ضرور ڈھونڈتے اِلٰى : طرف ذِي الْعَرْشِ : عرش والے سَبِيْلًا : کوئی راستہ
تو کہہ اگر اس کے ساتھ اور معبود ہوتے جیسے وہ کہتے ہیں تو وہ سب صاحب عرش کی طرف ومنازعت کی راہ نکالتے (ف 1) ۔
1) اللہ کی توحید خالص اسلامی عقیدہ ہے ، جس کو قرآن حکیم نے مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے ، کبھی مظاہر فطرت کی یکسائی کو تائید میں پیش کیا کبھی خود نفس انسانی کی بوالعجیبوں کی طرف توجہ دلائی کبھی مشرکین کے عقائد کی تردید کی ، اور فرمایا کہ شرک عقلا محال ہے چناچہ اس آیت میں مشرکین کے عقیدہ شرک پر اعتراض کیا ہے ارشاد ہے کہ اگر واقعی یہ بت خدا ہیں ، جنہیں تم پوجتے ہو ، تو پھر ہونا یہ چاہئے کہ انہیں صاحب عرش کا قرب خاص حاصل ہو ، اور اللہ کے نزدیک یہ ذی مرتبت وجاہت ہوں ورنہ تمہیں یہ قرب کیونکہ عطا کروا سکتے ہیں ؟ جبکہ خود درجہ قرب سے محروم ہیں ، آیت کا دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ مگر اللہ کے سوا اور خدا بھی موجود ہیں تو پھر اللہ کے ساتھ انہیں ہر بات میں تعرج کرنا چاہئے ، لڑائی اور فساد ہونا چاہئے ، اور پھر اس صورت تخالف میں دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجاؤ لازم ہوا ۔
Top