Siraj-ul-Bayan - Al-Israa : 110
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ١ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ۚ وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا
قُلِ : آپ کہ دیں ادْعُوا : تم پکارو اللّٰهَ : اللہ اَوِ : یا ادْعُوا : تم پکارو الرَّحْمٰنَ : رحمن اَيًّا مَّا : جو کچھ بھی تَدْعُوْا : تم پکارو گے فَلَهُ : تو اسی کے لیے لْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى : سب سے اچھے نام وَلَا تَجْهَرْ : اور نہ بلند کرو تم بِصَلَاتِكَ : اپنی نماز میں وَ : اور لَا تُخَافِتْ : نہ بالکل پست کرو تم بِهَا : اس میں وَابْتَغِ : اور ڈھونڈو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : راستہ
تو کہہ اللہ کو پکارو ، یا رحمن کو پکارو ، جس نام سے پکارو ، سو اس کے اچھے نام کئی ایک ہیں اور تو اپنی نماز میں نہ پکار ، اور نہ چپکے پڑھ ، اور اس کے درمیان کی راہ تلاش کر (ف 3) ۔
ہر زبان میں خدا کا نام لو ! (ف 3) قرآن حکیم تمام بنی آدم کی مشترکہ کتاب ہے ، اس لئے اس میں یہ التزام ہے کہ تمام اختلاف افگن چیزوں کی مخالفت کرے ، اور روح مذہب کے مرکز پر سب کو جمع کر دے ، اور ان تمام تفریقات کو مٹا دے ، جن کی وجہ سے ردائے انسانیت تار تار ہوجاتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے ، کہ اللہ کو پکارو ، یا رحمن کو یاد کرو ، سب جائز ہے ، بشرطیکہ خدا کے جمال و جلال کو ملحوظ رکھا جائے یعنی یہ لفظی اختلاف کہ ” اللہ “ تو ہمارا خدا ہے اور رحمن مسلمانوں کا خدا ہے ، ناقابل التفات ہے ، سارے اچھے نام اور تمام اچھی صفتیں اللہ کے ساتھ متصف ہو سکتی ہیں ، تم خدا کو جس نام کے ساتھ چاہو ، یاد کرو ، یہ لفظی اختلافات ہیں ، خدا بہرحال ایک ہے اور وہی سب کا مالک و خالق ہے ، اور سب کے لئے یکسان لائق احترام و عبادت ہے ، ان اختلافات اسمی سے اس کی ذات میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا ، کیا پانی کو ، آب ’ ماء ، اور واٹر کہہ دینے سے اس کی حقیقت بدل جاتی ہے ۔ جب نہیں بدل جاتی ، تو اللہ کو مختلف زبانوں میں تعبیر کرنے سے کیوں کفر لازم آئے ؟ بات یہ ہے کہ اسلام نے اللہ تعالیٰ کا ایک نہایت محترم اور لائق فہم تخیل پیش کیا ہے ، جس میں تجسم وحلول کا شائبہ تک نہیں ، اس لئے اگر اس تخیل کو پیش نظر رکھا جائے ، تو پھر مختلف زبانوں میں اس کا نام لینا قابل اعتراض نہیں رہتا ۔ آداب دعاء میں یہ ہدایت فرمائی کہ نہ تو بلند آواز میں ہو ، کہ خشوع و خضوع پیدا نہ ہو سکے ، اور نہ اس قدر آہستہ ہو ، کہ کان بھی نہ سنیں ، بلکہ درمیان راہ اختیار کی جائے ، کیونکہ اسلام تو کہتے ہی اس طریق کو ہیں جو وسط اور درمیانی ہو ۔
Top