Tafseer-e-Saadi - As-Saff : 9
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ اللہ وہ ذات ہے اَرْسَلَ : جس نے بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنے رسول کو بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق کے ساتھ لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ غالب کردے اس کو عَلَي : اوپر الدِّيْنِ كُلِّهٖ : دین کے سارے کے سارے اس کے وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ : اور اگرچہ ناپسند کریں مشرک
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔
پھر اللہ تبارک وتعالی نے دین اسلام کے حسی اور معنوی غلبے اور فتح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا (هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى) وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت کے ساتھ بھیجا۔ یعنی اس نے اپنا رسول علم نافع ور عمل صالح کے ساتھ مبعوث کیا۔ علم سے مراد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے تکریم والے گھر کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ جو بہترین اعمال واخلاق سکھاتا ہے اور جو دنیا وآخرت کے تمام مصالح کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ( وَدِيْنِ الْحَقِّ ) اور دین حق کے ساتھ۔ یعنی وہ دین جسے اختیار کیا جاتا ہے جس کے ذریعے سے رب کائنات کی بندگی کی جاتی ہے جو سراسر حق اور صدق ہے جس میں کوئی نقص ہے نہ اسے کوئی خلل لاحق ہے جس کے اوامر قلب وروح کی غذا اور جسم کی راحت ہیں اور اس کے نواہی کو ترک کرنا شر اور فساد سے سلامتی ہے۔ نبی اکرم کو جس ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے وہ آپ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل اور برہان ہے اور جبتک دنیاباقی ہے یہ دلیل باقی رہے گی خرد مند جتنا زیادہ اس میں غور و فکر کرے گا اتنی ہی اسے فرحت و بصیرت ہوگی ( لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ ) تاکہ وہ اس دین کو حجت اور دلیل کے ذریعے سے تمام ادیان پر اور اہل دین کو جو اس پر قائم ہیں شمشیر وسناں کے ذریعے سے باطل قوتوں پر غالب کردے۔ رہا دین تو یہ غلبہ ہر زمانے میں اس کا وصف لازم رہا ہے چناچہ کوئی غالب آنے کی کوشش کرنے والا اس پر غالب آسکتا ہے نہ جھگڑنے والا اس کو زیر کرسکتا ہے دین ہیشہ فتح مند ہی رہے گا اسی کو فوقیت اور غلبہ حاصل رہے گا۔ رہے وہ لوگ جو دین اسلام سے انتساب رکھتے ہیں تو جب وہ اس دین کو قائم کریں گے اس کے نور سے روشنی حاصل کریں اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں اس کے لائحہ عمل کو راہ نماب نائیں تو اس طرح کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور ان کا تمام اہل ادیان پر غالب آنا لازمی ہے اور اگر وہ اس دین کو ضائع کردیں اور اس کے ساتھ مجردا نتساب ہی کو کافی سمجھیں تو دین ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور ان کا دین کو چھوڑ دینا ان پر دشمن کے تسلط کا سبب بنے گا۔ قرون اولی کے مسلمانوں اور متاخرین کے احوال کے اسقراء اور ان میں غور و فکر کے ذریعے سے اس حقیقت کی معرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔
Top