Tafseer-e-Saadi - Al-An'aam : 94
وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ١ۚ وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَكٰٓؤُا١ؕ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق جِئْتُمُوْنَا : آگئے تم ہمارے پاس فُرَادٰي : تنہا۔ اکیلے كَمَا : جیسا کہ خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا تھا ہم نے تم کو اَوَّلَ : پہلی مَرَّةٍ : بار وَّتَرَكْتُمْ : اور چھوڑ آئے تھے تم مَّا : جو خَوَّلْنٰكُمْ : دیا ہم نے تم کو وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ : اپنی پیٹھوں کے پیچھے وَمَا نَرٰي : اور نہیں ہم دیکھتے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ شُفَعَآءَكُمُ : تمہارے سفارشیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جو زَعَمْتُمْ : گمان کیا کرتے تھے تم۔ زعم رکھتے تھے تم اَنَّهُمْ : بیشک وہ فِيْكُمْ : تم میں شُرَكٰٓؤُا ۭ : شریک ہیں لَقَدْ تَّقَطَّعَ : البتہ تحقیق کٹ گئے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان سے وَضَلَّ : اور گم ہوگیا عَنْكُمْ : تم سے مَّا كُنْتُمْ : وہ جو تھے تم تَزْعُمُوْنَ : تم گمان کیا کرتے
اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے اور جو (مال و متاع) ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے۔ اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے شفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم خیال کرتے تھے کہ وہ تمہارے (شفیع اور ہمارے) شریک ہیں۔ (آج) تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے اور جو دعوے تم کیا کرتے تھے سب جاتے رہے۔
آیت 94 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑا ظالم اور مجرم کوئی اور نہیں جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی بات یا حکم منسوب کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ بری ہے۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کو سب سے بڑا ظلم اس لئے کہا گیا ہے، کیونکہ یہ بہتان پر مبنی ہے۔ اس میں ادیان، ان کے اصول و فروع میں تغیر و تبدل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو سب سے بڑی برائی ہے۔ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنا اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی ہے، اسی افترا میں شامل ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور اس کی عظمت و غلبہ کے سامنے جسارت کا ارتکاب کرنے کے ساتھ اس بات کو بھی واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اس (جھوٹے نبی) کی پیروی کریں اور اس بات پر لوگوں سے لڑائی کریں اور اپنے مخالفین کے جان و مال کو وہ حلال قرار دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ کی وعید میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا جیسے مسلیمہ کذاب، اسود عنسی، مختار ثقفی اور دیگر مدعیان نبوت جو اس وصف سے متصف ہیں۔ (ومن قال سانزل مثل مآ انزل اللہ) ” اور جو کہے کہ میں بھی اتارتا ہوں مثل اس کے جو اتار اللہ نے “ یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو یہ زعم رکھتا ہے کہ وہ اس چیز پر قادر ہے جس پر اللہ تعالیٰ قادر ہے، وہ احکام میں اللہ تعالیٰ کا مقابلہ کرسکتا ہے، وہ بھی اسی طرح شریعت بنا سکتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اس وعید میں وہ شخص بھیش امل ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرسکتا ہے اور قرآن جیسی کتاب وہ بھی بنا سکتا ہے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک بالذات محتاج اور عاجز بندہ جو ہر لحاظ سے ناقص ہے، یہ دعویٰ کرے کہ وہ ایک طاقتور اور بےنیاز ہستی کے ساتھ خدائی میں شریک ہے جو ہر پہلو سے اپنی ذات، اسما اور صفات میں کمال مطلق کی مالک ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان ظالموں کی مذمت کی سوت ساتھ ہی اس عذاب کا بھی ذکر فرما دیا جو ان کے لئے تیار کیا گیا ہے اور حالت نزع میں ان کو دیا جائے گا۔ (ولو تری اذا الظلمون فی غمرت الموت) ” اور اگر آپ دیکھیں جس وقت کہ ظالم ہوں موت کی سختویں میں “ یعنی جب یہ ظالم موت کی شدت، اس کے ہول اور اس کے کرب میں مبتلا ہوں تو آپ ایک نہایت ہولناک حالت اور معاملہ دیکھیں گے کہ کوئی اس کا وصف بیان نہیں کرسکتا (والملئکۃ باسطوآ ایدیھم) ” اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہیں “ جب نزع کی حالت میں فرشتے ان ظالموں کو ماریں گے اور عذاب کے ساتھ ان کی طرف ہاتھ بڑھئایں گے ان کی روحوں کو قبض کرتے اور حرکت دیتے وقت۔ جبکہ روحیں جسموں سے نکلنے سے انکار کریں گی، کہیں گے : (اخرجوا انفسکم الیوم تجزون عذاب الھون) ” کہ نکالو تم اپنی جانیں، آپ تمہیں رسوائی کا عذاب دیا جائے گا “ یعنی ایسا سخت عذاب جو تمہیں ذلیل و رسوا کر دے گا اور جزا ہمیشہ عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ یہ عذاب اس پاداش میں ہے کہ (بما کنتم تقولون علی الہ غیر الحق) ” اس لئے کہ تم اللہ کے ذمے ناحق باتیں لگاتے تھے۔ “ تم جھوٹ بولتے تھے اور حق کو ٹھکراتے تھے جو انبیاء لے کر تمہارے پاس آئے تھے (وکنتم عن ایتہ تستکبرون) ” اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔ “ اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات کی اطاعت اور ان کے احکام کو ماننے سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے تھے۔ یہ آیت کریمہ برزخ کے عذاب اور برزخ کی نعمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس خطاب اور عذاب کا رخ ان کی طرف عین نزع کے وقت اور موت سے تھوڑا سا پہلے اور پھر موت کے بعد ہے، نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ روح جسم رکھتی ہے جو داخل ہوتی ہے اور خارج ہوتی ہے جس کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ وہ جسد کے ساتھ مل کر رہتی ہے اور اس سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ یہ ان کا برزخی حال ہے۔ قیامت کے روز جب یہ وارد ہوں گے تو نہایت افلاس کی حالت میں اکیلے اکیلے آئیں گے۔ ان کے ساتھ گھر والے ہوں گے نہ مال ہوگا نہ اولاد ہوگی، ان کے ساتھ لشکر ہوں گے نو اعوان و انصار، وہ قیامت کے روز اسیطرح ہر چیز سے عاری اور عریاں حالت میں آئیں گے جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا، کیونکہ اشیا تو اس کے بعد ان اسباب کے ذریعے سے حاصل کی جاتی ہیں جو ان کے لئے مقرر ہیں۔ اس روز وہ تمام امور منقطع ہوجائیں گے جو دنیا میں بندے کے ساتھ تھے۔ سوائے نیک اعمال یا بداعملا کے، اور یہ اعمال ہی آخرت کا مادہ ہیں جن سے آخرت ظہور پذیر ہوگی، آختر کا حسن و قبح، اس کا سرور و غم اور اس کا عذاب و نعمت اعمال کے مطابق حاصل ہوگا۔ یہ اعمال ہی ہیں جو نفع دیں گییا نقصان دیں گے، جو اچھے لگیں گے یا برے لگیں گے اور ان اعمال کے علاوہ اہل و اولاد، مال و متاع اور اعوان و انصار، تو یہ سب دنیا میں رہ جانے والے اسباب، زائل ہوجانے والے اوصاف اور بدل جانے والے احوال ہیں۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ولقد جئتمونا فرادی کما خلقنکم اول مرۃ وترکتم ماخولنکم ) ” البتہ تم ہمارے پاس آگئے ایک ایک ہو کر جیسے ہم نے پیدا کیا تھا تم کو پہلی مرتبہ اور چھوڑ آئے تم جو کچھ اسباب ہم نے دیئے تھے تمہیں “ یعنی جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا اور جن نعمتوں سے ہم نے تمہیں نوازا تھا (ورآء ظھورکم) ” اپنے پیچھے “ انہیں پیچھے چھوڑ آئے ہو اور وہ تمہارے کسی کام نہ آئیں گی (وما نری معکم شفعآء کم الذین زعمتم انھم فیکم شرکوآء) ” اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ سفارشیوں کو جن کو تم گمان کرت ی تھے کہ ان کا تم میں ساجھا ہے “ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا کرتے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملائکہ، انبیاء اور صالحین وغیرہم کی عبادت بھی کیا کرتے تھے، حالانکہ یہ سب اللہ کی ملکیت ہیں مگر وہ لوگ ان مخلوق ہستیوں کے لئے ایک حصہ صھہراتے تھے اور اپنی عبادت میں ان کو شریک کرتے تھے اور یہ ان کا زعم باطل اور ظلم ہے کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا مالک اور ان کی عبادت کا مستحق ہے، لہٰذا ان کے شرک فی العبادۃ بعض بندوں کو عبادت کا مستحق ٹھہرانے اور ان کو خالق ومالک کا مقام دینے کی بنا پر قیامت کے روز ان کو زجر و تبیخ کی جائے گی اور ان سے مذکورہ بات کہی جائے گی۔ (لقد تقطع بینکم) ” تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے۔ “ یعنی آج تمہارے اور تمہارے شرکاء کے مابین سفارش وغیرہ کے تمام روابط اور تعلقات منقطع ہوگئے اور ان تعلقات نے کوئی فائدہ نہ دیا۔ (وضل عنکم ما کنتم تزعمون) ” اور جاتے رہے وہ دعوے جو تم کیا کرتے تھے۔ “ وہ نفع، امن، سعادت اور نجات جن کے وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے، گم ہوگئے جن کو شیطان تمہارے سامنے مزین کیا کرتا تھا، تمہارے دلوں میں انہیں خوبصورت بنایا کرتا تھا اور تمہاری زبانوں پر ان کا ذکر رہا کرتا تھا اور تم اپنے اس زعم باطل کے فریب میں مبتلا رہے جس کی کوئی حقیقت نہیں یہاں تک کہ ان تمام دعوؤں کا بطلان واضح ہوگیا اور ظاہر ہوگیا کہ تم خود اپنی ذات، اپنے اہل و عیال اور اپنے مال و متاع کے بارے میں خسارے میں پڑے رہے۔
Top