Tafseer-e-Saadi - Al-An'aam : 4
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَ : اور مَا تَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس نہیں آئی مِّنْ : سے۔ کوئی اٰيَةٍ : نشانی مِّنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّهِمْ : ان کا رب اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ ہوتے ہیں عَنْهَا : اس سے مُعْرِضِيْنَ : منہ پھیرنے والے
اور خدا کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان لوگوں کے پاس نہیں آتی مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
آیت 4 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکین کے اعراض، ان کی شدت تکذیب اور ان کی عداوت کے بارے میں خبر ہے، نیز یہ کہ آیات و معجزات انہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گے جب تک کہ ان پر عبرتناک عذاب نازل نہ ہوجائے۔ چناچہ فرمایا : (وما تاتیھم من ایۃ من ایت ربھم) ” اور نہیں آتی ان کے پاس کوئی نشانی ان کے رب کی نشانیوں میں سے “ جو حق پر دلیل قطعی ہیں جو حق کے قبول کرنے اور اس کی اتباع کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ (الا کانوا عنھا معرضین) ” مگر وہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔ “ یعنی وہ ان آیات کو غور سے سنتے نہیں اور ان میں تدبر نہیں کرتے۔ ان کے دل دوسرے امور میں مصروف ہیں اور انہوں نے پیٹھ پھیرلی ہے۔ (فقد کذبوا بالحق لما جآء ھم) ” انہوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا “ حالانکہ حق اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے ان کے لئے حق کو آسان کردیا اور وہ ان کے پاس حق لے کر آیا، مگر انہوں نے اس حق کا سامنا اس رویہ کے برعکس رویئے کے ساتھ کیا جس رویئے کے ساتھ انہیں اس کا سامنا کرنا چاہیے تھا۔ اس لئے وہ سخت عذاب کے مستحق ٹھہرے۔ (فسوف یاتیھم انبوآء ماکانوا بہ یستھزء ون) ” سو اب آیا چاہتی ہے ان کے پاس حقیقت اس بات کی جس پر وہ ہنستے تھے۔ “ یعنی وہ چیز جس کا تمسخر اڑایا کرتے تھے اس کے بارے میں عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ حق اور سچ ہے، اللہ تعالیٰ جھٹلانے والوں کے جھوٹ اور بہتان کو کھول دے گا۔ یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جانے، جنت اور جہنم کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ قیامت کے روز ان جھٹلانے والوں سے کہا جائے گا۔ (آیت) ” اور اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ جو مرجاتا ہے اللہ اسے دوبارہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا۔ کیوں نہیں یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ تاکہ جن باتوں میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے ان پر ظاہر کر دے اور اس لئے بھی کہ کافروں کو معلوم ہوجائے کہ وہ جھوٹے تھے۔ “ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو حک مدیا کہ وہ امم سابقہ کے انجام سے عبرت پکڑیں، چناچہ فرمایا : (الم یروا کم اھلکنا من قبلھم من قرن) ” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے جھٹلانے والی کتنی ہی قوموں کے پے در پے ہلاک کردیا ؟ “ اور اس ہلاکت سے پہلے ہم نے انہیں مہلت دی (مکنھم فی الارض مالم نمکن لکم) ” ہم نے ان کو زمین میں وہ قوت و طاقت دی جو تمہیں ہم نے نہیں دی “ یعنی ہم نے انہیں مال، اولاد اور خوشحالی سے نوازا (آیت) ” اور چھوڑ دیا ہم نے ان پر آسمان کو لگاتار برستا ہوا اور بنادیں ہم نے نہریں بہتی ہوئی ان کے نیچے “ پھر اللہ تعالیٰ جو چاہتا اس پانی سے کھیتیاں اور پھل اگتے تھے جن سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے تھے اور جو دل چاہتا تھا تناول کرتے تھے۔ مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا، شہوات نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا اور لذات نے ان کو غافل کردیا۔ پس ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے مگر انہوں نے ان کی تصدیق نہ کی بلکہ ان کو ٹھکرا دیا اور ان کو جھٹلا دیا (فاھلکنھم بذنوبھم وانشانا من بعدھم قرنا اخرین) ” تو ہم نے ان کو ان کے گناہوں یک پاداش میں ہلاک کردیا اور پیدا کیا ہم نے ان کے بعد دوسری امتوں کو “ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا پھر ان کے بعد اس نے اور قومیں پیدا کردیں۔ گزری ہوئی اور آنے والی قوموں کے بارے میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے ان کا جو قصہ بیان کیا ہے اس سے عبرت پکڑو۔
Top