Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 63
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰهُ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ۗ فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا
اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَعْلَمُ اللّٰهُ : اللہ جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں فَاَعْرِضْ : تو آپ تغافل کریں عَنْھُمْ : ان سے وَعِظْھُمْ : اور ان کو نصیحت کریں وَقُلْ : اور کہیں لَّھُمْ : ان سے فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے حق میں قَوْلًۢا بَلِيْغًا : اثر کرجانے والی بات
ان لوگوں کے دلوں میں جو جو کچھ ہے خدا اس کو خوب جانتا ہے تم ان (کی باتوں) کا کچھ خیال نہ کرو اور انہیں نصیحت کرو۔ اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں پر اثر کر جائیں
آیت 63 اللہ تعالیٰ منافقین کی حالت کے بارے میں اپنے بندوں پر تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ (الذین یزع مومن انھم امنوا) ” جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں۔ “ یعنی وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس چیز پر ایمان لائے جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے اور جو کچھ آپ ﷺ سے پہلے تھا۔ بایں ہمہ (یریدون ان یتحاکموآ الی الظاغوت) ” وہ چاہتے ہیں کہ وہ فیصلے طاغوت کی طرف لے جائیں۔ “ ہر وہ شخص جو شریعت الٰہی کے بغیر فیصلے کرتا ہے طاغوت ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ (وقد امروا ان یکفروابہ ) ” انہیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں۔ “ ان کا یہ رویہ اور ایمان کیسے اکٹھے ہوسکتے ہیں کیونکہ ایمان اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پیروی کی جائے اور اس کی تحکیم کو قبول کیا جائے۔ پس جو کوئی مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو چھوڑ کر طاغوت کے فیصلے کو قبول کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ شیطان نے ان کو گمراہ کردیا ہے (ویرید الشیطن ان یضلھم ضلاً بعیداً ) ” اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر راستے سے دور کر دے۔ “ یعنی شیطان چاہتا ہے کہ وہ انہیں حق سے دور کر دے۔ فرمایا : (فکیف) یعنی ان گمراہوں کا کیا حال ہوتا ہے (اذا اصابتھم مصیبۃ بما قدمت ایدیھم) ” جب ان پر ان کے کرتوتوں کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے “ یعنی گناہ، معاصی اور طاغوت کی تحکیم بھی اس میں شامل ہے (ثم جآؤ وک) ” پھر آپ کے پاس آتے ہیں۔ “ یعنی جو کچھ ان سے صادر ہوا اس پر معذرت کرتے ہوئے آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں۔ (یحلفون باللہ ان اردنا الا احساناً وتوفیقاً ) ” اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور یمل ملاپ ہی کا تھا۔ “ یعنی ہمارا مقصد تو صرف جھگڑے کے فریقین کے ساتھ بھلائی کرنا اور ان کے درمیان صلح کروانا ہے۔ حالانکہ وہ اس بارے میں سخت جھوٹے ہیں۔ بھلائی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تحکیم میں ہے۔ (ومن احسن من اللہ حکم لقوم یوقنون) (المائدہ :50/5) ” جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کس کا ہے ؟ “ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اولئک الذین یعلم اللہ مافی قلوبھم) ” یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے “ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی پروانہ کیجیے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس پر دھیان نہ دیجیے (وعظھم) ” اور انہیں نصیحت کریں۔ “ یعنی انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ترغیب دیتے ہوئے اور ترک اطاعت پر انہیں ڈراتے ہوئے ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا حکم بیان کیجیے۔ (وقل لھم فی انفسھم قولاً بلیغاً ) ” اور ان سے وہ بات کیجیے جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو “ یعنی اپنے درمیان اور ان کے درمیان معاملے کو راز رکھتے ہوئے انہیں نصیحت کیجیے۔ حصول مقصد کے لئے یہ طریقہ زیادہ مفید ہے اور ان کو برائیوں سے روکنے اور زجر و توبیخ میں پوری کوشش سے کام لیجیے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہگار کے ساتھ اگر اعراض کیا جائے تو پوشیدہ طور پر اس کے لئے خیر خواہی کا اہتمام ضرور کیا جائے اور اس کو نصیحت کرنے میں پوری کوشش سے کام لیا جائے جس سے وہ اپنا مقصد حاصل کرسکے۔
Top