Tafseer-e-Saadi - Al-Furqaan : 7
وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًاۙ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا مَالِ : کیسا ہے ھٰذَا الرَّسُوْلِ : یہ رسول يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشِيْ : چلتا (پھرتا) ہے فِي : میں الْاَسْوَاقِ : بازار (جمع) لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْهِ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : کوئی فرشتہ فَيَكُوْنَ : کہ ہوتا وہ مَعَهٗ : اس کے ساتھ نَذِيْرًا : ڈرانے والا
اور کہتے ہیں یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس پر کیوں نازل نہیں کیا گیا اس کے پاس کوئی فرشتہ کہ اسکے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا ؟
(آیت نمبر (7 یہ ان لوگوں کا قول ہے جنہوں نے رسول ﷺ کو جھٹلایا اور آپ کی رسالت میں جرح و قدع کی۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ یہ رسول فرشتہ یا کوئی بادشاہ کیوں نہیں یا اس کی خدمت اور مدد کے لیے کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا ؟ چناچہ انہوں نے کہا : (مال ھذ الرسول) یعنی یہ کیسا شخص ہے جو رسالت کا دعویٰ کرتا ہے ( یا کل الطعام ) ” کھانا کھاتا ہے “ حالانکہ یہ تو بش رکی خصوصیات میں سے ہے۔ وہ فرشتہ کیوں نہیں کہ وہ کھانا کھاتا نہ ان امور کا محتاج ہوتا بشر جن کا محتاج ہے۔ ( ویمشی فی الاسواق) یعنی خریدو فروخت کے لیے “ بازاروں میں چلتا پھرتا ہے “ اور یہ ان کے خیال کے مطابق ایک رسول کے لائق نہیں ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( وما ارسلنا قبلک من المرسلین الا انھم لیا کلون اطعام و یمشون فی الاسواق) (الفرقان : (20/25” ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجیے ہیں وہ سب کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ “ (لو لا انزل الیہ ملک) یعنی اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو اس کا ہاتھ بٹاتا ( فیکون معہ نڈیر ) ” پس وہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا۔ “ یعنی ان کے زعم باطل کے مطابق آپ رسالت کا بوجھ اٹھانے کے لیے کافی نہیں ہیں اور نہ آپ کو رسالت کی۔ ذمہ داریاں اٹھانے کی طاقت اور قدرت حاصل ہے (او ینقی الیہ کنز ) ” یا ڈال دیا جاتا اس کی طرف کوئی خزانہ۔ “ یعنی ایسا مال جو بغیر کسی محنت مشقت کے اکٹھا کیا گیا ہو (اوتکون لہ جنۃ یا کل منھا ) ” یا اس کے لیے باغ ہوتا جس سے وہ کھاتا۔ “ یعنی اس باغ کی وجہ سے وہ طلب رزق کی خاطر بازاروں میں چلنے پھرنے سے مستغنی ہوجاتا (وقال الظلمون ) ” اور ظالموں نے کہا۔ ‘ ض یعنی ان کے اس اعتراض کا باعث ان کا اشتباہ نہیں ‘ بلکہ ان کا ظلم ہے (واقال الظلمون ) ” اور ظالموں نے کہا۔ “ یعنی ان کے اس اعتراض کا باعث ان کا اشتباہ نہیں ‘ بلکہ ان کا ظلم ہے (ان تتبعون الا رجلا مسحور) “ تم تو ایک سحر زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔ “ حالانکہ وہ آپ کی کامل عقل ‘ آپ کی اچھی شہرت اور تمام مطاعن سے سلامت اور محفوظ ہونے کے بارے میں خوب جانتے تھے۔ چونکہ ان کے یہ اعتراض بہت ہی عجیب و غیریب تھے اس لیے ان کے جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (انظر کیف ضربوالک الامثال) ” دیکھو ‘ وہ آپ کے لیے کیسے مثالیں بیان کرتے ہیں۔ “ اور وہ یہ کہ وہ (رسول فرشتہ کیوں نہ ہوا ؟ اور اس سے بشری خصوصیات کیوں زائل نہ ہوئیں ؟ یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہوتا : کیونکہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ اس کی قدرت نہیں رکھتا یا اس پر کوئی خزانہ اتارا گیا ہوتا یا اس کی ملکیت میں کوئی باغ ہوتا جو اس کو بازاروں میں طلب معاش کے لیے مارے مارے پھرنے سے مستغنی رکھتا ؟ یا یہ کوئی سحر زدہ آدمی ہے ؟ (فضلوا فلا یستطیعون سبیلا) ” پس وہ گمراہ ہوگئے اور کسی طرح وہ راہ پر نہیں آسکتے۔ “ انہوں نے اس قسم کی متناقض باتیں کہی ہیں جو سراسر جہالت ‘ گمراہی اور حماقت پر مبنی ہیں۔ ان میں کوئی بھی ہدایت کی بات نہیں ‘ بلکہ ان میں کوئی ادنیٰ ساشبہ ڈالنے والی بات بھی نہیں جو رسالت میں قادح ہو۔ مجرد غورو فکر کرنے سے ایک عقلمند شخص کو اس کے بطلان کا قطعی یقین ہوجاتا ہے جو اس کو رد کرنے کے لیے کافی ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے غورو فکر اور تدبر کرنے کا حکم دیا ہے کہ آیا یہ اعتراضات رسول کی رسالت اور صداقت کے قطعی یقین کے بارے میں توقف کے موجب بن سکتے ہیں ؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کو اس دنیا میں خیر کثیر سے نوازنے کی قدرت رکھتا ہے ‘ چناچہ فرمایا : (تبرک الذی ان شاء جعل لک خیر امن ذالک ) ” بابرکت ہے وہ ذات جو اگر چاہے تو آپ کے لیے ان سے بہتر چیزیں کر دے۔ “ یعنی ان چیزوں سے بھی بہتر جن کا انہوں نے ذکر کیا ہے پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : (جنت تجری من تحتھا الانھر و یجعل لک قصورا) ” باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور کردے وہ آپ کے لیے محلات۔ “ یعنی بلند اور آراستہ محل۔ پس اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہیں مگر ‘ چونکہ دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی حقیر چیز ہے ‘ اس لیے وہ اپنے انبیاء و اولیاء کو صرف اتنی ہی دنیا عطا کرتا ہے جتنی حکمت اس کا تقاضا کرتی ہے اور ان کے دشمنوں کے اعتراضات کہ انہیں بہت زیادہ رزق سے کیوں نہیں نوازا گیا ‘ محض ظلم اور جسارت ہے۔ چونکہ ان تمام اعتراضات و اقوال کا فساد واضح ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے بھی آگاہ فرما دیا ہے کہ ان کی طرف سے یہ تمام اعتراضات طلب حق کی خاطر صادر ہوئے ہیں نہ دلیل کی پیروی کے لیے بلکہ یہ تمام اعتراضات انہوں نے تعنت ‘ ظلم اور تکزیب حق کی وجہ سے کئے ہیں ‘ انہوں نے وہی بات کہی جو ان کے دل میں تھی بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (بل کذبوا بالساعۃ ) ” بلکہ انہوں نے قیامت کی تکزیب کی “ اور تکزیب کرنے والے اور اعتراض کے لیے لغزشیں تلاش کرنے والے شخص کے لیے ‘ جس کا مقصد اتباع حق نہیں ہوتا ہدایت کا کوئی راستہ نہیں اور نہ اس کے ساتھ بحث کرنے میں کوئی فائدہ ہے اس کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ اس پر عذاب نازل کردیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( واعتد نا لمن کذب بالساعۃ سعیر) ” اور ہم نے قیامت کی تکزیب کرنے والوں کے لیے بھڑکتی آگ تیار کی ہے۔ “ یعنی بڑی آگ جس کے شعلے بہت زیادہ بھڑک رہے ہوں گے ‘ جہنمیوں پر سخت غیظ و غضب ظاہر کرے گی اور اس کی پھنکار بہت شدید اور خوف ناک ہوگی۔ (اذا راتھم من مکان بعید) ” جب وہ ( آگ) ان کو دیکھے گی دور کی جگہ سے۔ “ یعنی اس سے پہلے کہ وہ جہنم میں پہنچیں اور جہنم ان کو وصول کرے (سمعوا لھا تغیظ) ” وہ (اپنے اوپر) اس کے غیظ و غضب کی آوازیں سنیں گے “ (وزفیر) ” اور دھاڑنا ( سنیں گے) ۔ “ کہ جس سے صدمے اور خوف کی وجہ سے کلیجیے پھٹ جائیں گے اور دل پارہ پارہ ہوجائیں گے اور قریب ہے کہ ان میں کوئی خوف اور دہشت کے مارے مر ہی جائے۔ جہنم اپنے خالق کے غضب کی وجہ سے ان پر غضب ناک ہوگی ‘ ان کے کفر اور برائی کی کثرت کی وجہ سے جہنم کے شعلے اور زیادہ ہوجائیں گے۔ (واذ القوامنھا مکانا ضیقا مقرنین) ” اور جب انہیں جکڑ کر جہنم میں کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا۔ “ یعنی عذاب کے وقت ‘ جہنم کے عین وسط میں ایک بہت ہی تنگ جگہ اور بھیڑ میں ‘ بیڑیوں اور زنجیروں میں باند کر ڈال دیا جائے گا۔ جب یہ اس منحوس جگہ پر پہنچیں گے اور انہیں بدترین حبس کا سامنا کرنا پڑے گا (دعواھنالک ثبورا) تو اس وقت وہ اپنے لیے موت ‘ رسوائی اور فضیحت کو پکاریں گے۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ ظالم اور حد سے بڑھنے والے ہیں اور خالق کائنات نے انہیں ان کے اعمال کی پاداش میں اس جگہ بھیج کر انصاف کیا ہے۔ مگر یہ دعا اور استغاثہ ان کے کسی کام آئیں گے نہ انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکیں گے بلکہ ان سے کہا جائے گا : (لاتدعوا الیوم ثبورا واحد اوادعو ثبورا کثرا) ” آج تم ایک ہی موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں ( ہلاکتوں) کو پکارو ! “ یعنی اگر تم اس سے بھی کئی گنا زیادہ چیختے چلاتے رہو ‘ تو تمہیں حزن و غم کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ظالموں کی سزا بیان کرنے کے بعد یہ مناسب تھا کہ متقین کی جزا کا ذکر کیا جائے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
Top