Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
(مومنو ! ) کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے) قائل ہوجائیں گے (حالانکہ) ان میں سے کچھ لوگ کلام خدا (یعنی تورات) کو سنتے پھر اس کے بعد سمجھ لینے کے اس کو جان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں ؟
آیت 75 تا 78 یہاں اہل کتاب کے ایمان لانے کے بارے میں اہل ایمان کی امیدوں کو ختم کردیا ہے کہ تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔ ان کے اخلاق ایسے ہیں جو ان کے ایمان کی امید کے متقاضی نہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھ کر اور جان بوجھ کر اس کے معانی میں تحریف کرتے ہیں۔ پس وہ اس کے لئے ایسے معانی اور مفاہیم وضع کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہیں تاکہ لوگ اس وہم میں مبتلا ہوں کہ یہ مفاہیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہیں۔ پس جب ان کی اس کتاب کے بارے میں یہ حالت ہے جسے وہ اپنے لئے باعث شرف اور اپنا دین قرار دیتے ہیں اور اس کتاب کے ذریعے سے وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ تب ان سے کیونکر یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ تم پر ایمان لائیں گے۔ یہ بعید ترین چیز ہے۔ پھر اہل کتاب کے منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا ” جب وہ ایمان والوں کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے “ یعنی انہوں نے اپنی زبان سے ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کیا جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ” کیا تم ان کو وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں ؟ “ یعنی کیا تم ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظحار کرتے ہو اور انہیں بتاتے ہو کہ تم ان کی مانند ہو ؟ پس یہ چیز ان کے لئے تمہارے خلاف حجت بن جائے گی۔ وہ (یعنی اہل ایمان) کہیں گے کہ انہوں نے اقرار کیا کہ اہل ایمان حق پر ہیں اور جس پر وہ ہیں، وہ باطل ہے۔ پس اہل ایمان اپنے رب کے پاس تمہارے خلاف دلیل دیں گے۔ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ ” کیا پس تم سمجھتے نہیں ؟ “ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تم عقل سے عاری ہو کہ تم ان کے پاس وہ چیز چھوڑ رہے ہو جو تمہارے خلاف حجت ہوگی ؟ اَوَلَا يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ” کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں ؟ “ ہرچند کہ وہ اپنے ان عقائد کو چھپاتے ہیں جو ان کے مابین معروف ہیں اور وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے ان عقائد کو چھپایا ہوا ہے تاکہ یہ چیز اہل ایمان کے لئے ان کے خلاف دلیل نہ بنے۔ تاہم وہ اس بارے میں غلطی پر ہیں اور بہت بڑی جہالت میں مبتلا ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے۔ اس کے بندے جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کر دے گا۔ ومنھم ” اور کچھ ان میں سے “ یعنی اہل کتاب میں سے امیون ان پڑھ عوام بھی ہیں “ جو اہل علم میں شمار نہیں۔ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ : سوائے تلاوت کے اللہ کی کتاب میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ ان کے پاس اس چیز کی خبر بھی نہیں جو پہلوں کے پاس تھی جن کے حالات یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے پاس محض ظن، گمان اور اہل علم کی تقلید کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں اہل کتاب کے علماء، عوام، منافقین اور وہ جنہوں نے نفاق اختیار نہیں کیا، سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ان کے علماء اپنی گمراہی کے موقف پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور عوام بصیرت سے محروم ہیں اور ان علماء کی تقلید کرتے ہیں۔ پس ان دونوں گروہوں کے بارے میں تمہیں کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
Top