Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
مومنو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان فرماتے ہوئے ان پر روزے فرض کئے جس طرح اس نے پہلی امتوں پر روزے فرض کئے تھے، کیونکہ روزے کا تعلق ایسی شرائع اور اوامر سے ہے جو ہر زمانے میں مخلوق کی بھلائی پر مبنی ہیں۔ نیز روزے اس امت کو اس جرأت پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اعمال کی تکمیل اور خصائل حسنہ کی طرف سبقت کرنے میں دوسرے لوگوں سے مقابلہ کریں، نیز روزے بوجھل اعمال میں سے نہیں ہیں جن کا صرف تمہیں ہی بطور خاص حکم دیا گیا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے روزے کی مشروعیت کی حکمت بیات کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) ُ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْن ” تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ “ کیونکہ روزہ تقویٰ کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس لئے کہ روزے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی کامل اطاعت اور اس کی نہی سے مکمل اجتناب ہے۔ پس یہ آیت کریمہ تقویٰ کے جن امور پر مشتمل ہے وہ یہ ہیں کہ روزہ دار کھانا پینا اور جماع وغیرہ اور ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جنہیں وقتی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے حرام قرار دیا ہے اور جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا ہے، لیکن وہ صرف تقریب الٰہی اور ثواب کی امید پر ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے اور یہی تقویٰ ہے۔ روزے دار اپنے نفس کو یہ تربیت دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کی نگراین میں ہے، چناچہ وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں ترک کردیتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ان پر مطلع ہے۔ روزہ شیطان کی راہوں کو تنگ کردیتا ہے۔ شیطان ابن آدم کے اندر یوں گردش کرتا ہے جیسے اس کی رگوں میں خون گردش کرتا ہے۔ روزے کے ذریعے سے شیطان کا اثر و نفوذ کمزور پڑجاتا ہے اور گناہ کم ہوجاتے ہیں۔ غالب حالات میں روزہ دار کی نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نیکیاں تقویٰ کے خصائل میں شمار ہوتی ہیں۔ جب خوشحلای روزہ دار بھوک کی تکلیف کا مزا چکھ لیتا ہے تو یہ چیز محتاجوں اور ناداروں کی غمگساری اور دستگیری کی موجب بنتی ہے اور یہ بھی تقویٰ کی ایک خصلت ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اہل ایمان پر روزے فرض کردیئے، اس لئے یہ بھی واضح کردیا ج کہ یہ گنتی کے چند روزے ہیں۔ سہولت کی خاطر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور سہولت عطا کردی، چناچہ فرمایا : (آیت) فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخَرَ ۭ ” پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرلے۔ “ چونکہ غالب طور پر مریض کو اور مسافر کو دوران سفر مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو روزہ چھوڑنے کی رخصت عطا کردی ہے۔ چونکہ روزے کی منفعت و مصلحت کا حصول ہر ممکن کا مطلوب و مقصود ہے۔ اس لئے مریض اور مسافر کو حکم دیا کہ جب مرض جاتا رہے اور سفر ختم ہوجائے اور انسان کو راحت حاصل ہوجائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخَرَ ۭ میں اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کے دنوں کی گنتی کی قضا دی جائے خواہ رمضان پورا ہو یا ناقص۔ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ گرمیوں کے طویل دنوں کی قضا سردیوں کے چھوٹے دنوں میں دی جاسکتی ہے اور اس کے برعکس چھوٹے دنوں کی قضا بڑے دنوں میں دی جاسکتی ہے۔ (آیت) وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ ” اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہوں۔ “ یعنی جو روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ روزہ نہ رکھیں، تو وہ (آیت) فدیۃ۔ فدیہ دیں (آیت) طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ۭ” ایک مسکین کا کھانا۔ “ یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ یہ حکم روزوں کے فرض ہونے کی ابتدا میں تھا چونکہ انہیں روزے رکھنے کی عادت نہیں تھی اور روزے ان پر فرض تھے، تاہم اس میں ان کے لئے مشقت تھی، اس لئے رب حکیم نے نہایت آسان طریقے کے ساتھ انہیں اس راستے پر لگایا اور روزے کیطاقت رکھنے والے کو اللہ نے اختیار دے دیا کہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ مگر روزہ رکھنا افضل ہے۔ اسی لیے فرمایا : (آیت) وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ ” اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ ‘ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر اس مسلمان پر روزہ رکھنا فرض کردیا جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور طاقت نہ رکھنے والے شخص کو روز چھوڑنے اور دوسرے دنوں میں اس کی قضا دینے کی رخصت دے دی اور بعض کہتے ہیں کہ (آیت) وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو بہت تکلیف سے روزہ رکھتے ہیں۔ یعنی وہ روزے کی مشقت کے متحمل نہیں، جیسے بہت بوڑھا وغیرہ تو وہ روزہ کے بدلے میں ایک مسکینی کو کھانا کھلائے اور یہی مسلک صحیح ہے۔ (آیت) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ” رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا۔ یعنی جو روزے تم پر فرض کئے ہیں وہ رمضان کے روزے ہیں، یہ ایک ایسا عظمت والا مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل حاصل ہوا، یعنی قرآن کریم جو تمہارے دینی اور دنیاوی مصالح کی طرف رہنمائی پر مشتمل ہے۔ جو حق کو نہایت وضاحت سے بیان کرتا ہے اور جو حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی اور خوش بخت اور بدبخت لوگوں کے درمیان پرکھ نے کی کسوٹی ہے۔ وہ مہینہ جس کی یہ فضیلت ہو جس میں تمام پر اللہ تعالیٰ کا اس قدر احسان اور فضل ہو، اس بات کا مستحق ہے کہ وہ بندوں کے لئے نیکیوں کا مہینہ بنے اور اس کے اندر روزے فرض کئے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو روزوں کے لئے مقرر کردیا اور اس نے اس کی فضیلت اور روزوں کے لئے اس کو مختص کرنے کی حکمت کو واضح کردیا، تو فرمایا : (آیت) فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۭ” پس جو تم میں سے اس مہینے کو پالے، تو وہ اس کے روزے رکھے “ اس آیت کریمہ میں یہ بات متعین کردی گئی کہ ہر صحت مند شخص جو سفر میں نہ ہو اور روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو وہ رمضان کے روزے رکھے۔ چونکہ نسخ کا تعلق اس اختیار سے ہے جو خاص طور پر روزہ رکھنے اور فدیہ دینے کے درمیان دیا گیا تھا، اس لئے مریض اور مسافر کے لئے رخصت کو دوبارہ بیان کردیا گیا، تاکہ اس وہم کا ازالہ ہوجائے کہ مریض اور مسافر کے لئے بھی رخصت منسوخ ہوگئی ہے۔ پس فرمایا : (آیت)ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ. تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے، تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا “ یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تم پر اپنی رضا کے راستے حد درجہ آسان کر دے۔ اس لئے ان تمام امور کو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے، اصل میں حد درجہ آسان بنایا ہے اور جب کوئی ایسا عارضہ پیش آجائے جو ان کی ادائیگی کو مشکل اور بوجھل بنا دے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اور طرح سے آسان کردیا۔ یا تو سرے سے اس فرض ہی کو ساقط کردیا یا ان میں مختلف قسم کی تحقیقات سے نواز دیا۔ یہ اس (آسانی) کا اجمالاً ذکر ہے۔ یہاں تفاصیل بیان کرنا ممکن نہیں، کیونکہ اس کی تفاصیل تمام شرعیات کا احطاہ کئے ہوئے ہیں اور ان شرعیات میں تمام رخصتیں اور تحقیقات شامل ہیں۔ (آیت) وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ ” اور تاکہ تم اس کی گنتی کو پورا کرو۔ “ اس آیت کریمہ کا مقصد یہ ہے۔ واللہ اعلم کہ کوئی شخص اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ رمضان کے چند روزے رکھنے سے مقصو دو مطلوب حاصل ہوسکتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں روزوں کی تکمیل کے حکم کے ذریعے سے اس وہم کا ازالہ کردیا گیا، نیز حکم دیا گیا کہ روزوں کے مکمل ہونے پر بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی توفیق، سہولت اور تبیین کا شکر ادا کیا جائے۔ رمضان کے اختتام اور روزوں کے پورے ہونے پر تکبیریں کہی جائیں۔ اس حکم میں وہ تمام تکبیریں شامل ہیں جو شوال کا چاند دیکھ کر خطبہ عید سے فراغت تک کہی جاتی ہیں۔
Top