Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 137
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ١ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ
فَاِنْ : پس اگر اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں بِمِثْلِ : جیسے مَا آمَنْتُمْ : تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر فَقَدِ اهْتَدَوْا : تو وہ ہدایت پاگئے وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : انہوں نے منہ پھیرا فَاِنَّمَا هُمْ : تو بیشک وہی فِي شِقَاقٍ : ضد میں فَسَيَكْفِيکَهُمُ : پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا اللّٰہُ : اللہ وَ : اور هُوْ : وہ السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمہارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمہیں خدا کافی ہے اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے
یعنی اے اہل ایمان ! اگر الہ کتاب اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم تمام انبیاء ومرسلین ( علیہ السلام) اور تمام کتابوں پر ایمان لائے ہو، جن میں سب سے پہلے اور سب سے اولیٰ ہستی جس پر ایمان لایا جائے، حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء ﷺ ہیں جو تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن ہے اور انہوں نے اللہ وحدہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کی۔ (فَقَدِ اھْتَدَوْا) تو ان کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی مل گئی جو نعمتوں والی جنت تک پہنچانے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے اس ایمان کے بغیر ہدایت تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس ہدایت کا راستہ وہ نہیں جو وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ (كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا) یعنی یہودی یا نصرانی ہوجاؤ تو تم راہ راست پالو گے پس وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہدایت تو صرف وہی ہے جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔ اور (الھدی) ” ہدایت “ نام ہے حق کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کا اور اس کی ضد علم سے محرومی اور علم کے بعد عملی گمراہی ہے اور یہی وہ شقاق (دشمنی اور مخالفت) ہے جس پر وہ قائم تھے، کیونکہ وہ پیٹھ پھیر کر روگردانی کر رہے تھے۔ پس مبتلائے شقاق وہ شخص ہے جو ایک طرف ہوتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول دوسری طرف۔ اس شقاق (مخالفت) سے دشمنی اور انتہا درجے کی عداوت لازم آتی ہے جس کے لوازمات میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ عداوت میں مبتلا لوگ رسول کو اذیت دینے میں اپنی پوری کوشش صرف کرتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے وعدہ کیا کہ وہ دشمنوں کے مقابلے میں ان کے لئے کافی ہے کیونکہ وہ لوگوں کے اختلاف زبان اور ان کی متنوع حاجات و ضروریات کے باوجود سب کی آوازیں سنتا ہے۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو وہ سب جانتا ہے۔ غائب اور شاہد، ظاہر اور باطن سب اس کے دائرہ علم میں ہیں۔ پس جب بات اس طرح ہے تو ان کے شر کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تیرے لئے کافی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، آپ کو ان پر غلبہ اور تسلط عطا کیا یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگوں کو قتل کیا، بعض کو قیدی اور غلام بنا لیا گیا اور بعض کو جلا وطن کر کے انہیں پوری طرح تتر بتر کردیا گیا۔ اس آیت کریمہ میں قرآن کے معجزات میں سے ایک معجزے کی طرف اشارہ ہے او وہ ہے کسی چیز کے واقع ہونے سے قبل اس کے وقوع کے بارے میں خبر دینا پھر اس کا عین دی ہوئی خبر کے مطابق واقع ہونا۔
Top