Tafseer-e-Saadi - Al-Israa : 71
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ١ۚ فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓئِكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
يَوْمَ : جس دن نَدْعُوْا : ہم بلائیں گے كُلَّ اُنَاسٍ : تمام لوگ بِاِمَامِهِمْ : ان کے پیشواؤں کے ساتھ فَمَنْ : پس جو اُوْتِيَ : دیا گیا كِتٰبَهٗ : اسکی کتاب بِيَمِيْنِهٖ : اس کے دائیں ہاتھ میں فَاُولٰٓئِكَ : تو وہ لوگ يَقْرَءُوْنَ : پڑھیں گے كِتٰبَهُمْ : اپنا اعمالنامہ وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور نہ وہ ظلم کیے جائیں گے فَتِيْلًا : ایک دھاگے کے برابر
جس دن ہم سب لوگوں کو انکے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے تو جن (کے اعمال) کی کتاب ان کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی وہ اپنی کتاب کو (خوش ہو ہو کر) پڑھیں گے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہ ہوگا۔
(آیت نمبر (71: قیامت کے روز مخلوق کا جو حال ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ( اپنی عدالت میں) بلائے گا ان کے ساتھ ان کے امام اور رشدو ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والے راہ نما یعنی انبیاء ومرسلین اور ان کے نائبین بھی ہوں گے۔ پس ہر امت اللہ کے حضور پیش ہوگی اور اس امت کو وہی رسول ‘ اللہ کے حضور پیش کرے گا جس نے دنیا میں اسے دعوت توحید پیش کی تھی۔ ان کے اعمال اس کتاب کے سامنے پیش کیے جائیں گے ‘ جسے لے کے رسول اس امت میں مبعوث ہوا تھا کہ آیا ان کے اعمال اس کتاب کے موافق ہیں یا نہیں۔ تب یہ لوگ دو قسم کے گروہوں میں منقسم ہوجائیں گے۔ (فمن اوتی کتبہ بیمینہ) ” پس جس کو ملا اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں “ کیونکہ اس نے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والے اپنے ہادی و راہنما کی پیروی کی تھی اور اس کی کتاب کو اپنا لائحہ عمل بنایا تھا تب اس کی نیکیاں بڑھ گئیں اور اس کے گناہ کم ہوگئے۔ (فاولاک یقرو کتبھم) ” پس وہ ( خوش خوش) اپنے اعمال ناے کو پڑھیں گے “ کیونکہ وہ اس اعمال نامے میں ایسی چیزیں دیکھیں گے جنہیں دیکھ کر انہیں فرحت و سرور حاصل ہوگا۔ (ولا یظلمون فتیلا ) ” اور ان پر ایک دھاگے برابر ظلم نہیں ہوگا “ یعنی انہوں نے جو نیک عمل کئے ہیں اس بارے میں ان پر ذرہ بھر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ومن کان فی ڈذہ (اور جو رہا اس دنیا میں (اعمیٰ ) ” اندھا “ یعنی حق کے دیھنے سے۔ پس اس نے حق کو قبول کیا نہ اس کی پیروی کی بلکہ وہ گمراہی کے راستے پر چلتا رہا ( فھو فی الاخرۃ اعمی) ” تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا “ یعنی جس طرح وہ دنیا میں جنت کے راستے پر گامزن نہ ہوا اسی طرح وہ آخرت میں بھی جنت کے راستے کو دیکھ نہ سکے گا (واضل سبیلا) ” اور بہت دور پڑا ہوا راستے سے “ کیونکہ عمل کی جزا بھی اسی کی جنس سے ہوتی ہے ‘ یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر امت کو اس کے دین اور کتاب کی طرف بلایا جائے گا کہ آیا اس نے اس کتاب کے مطابق عمل کیا یا نہیں ؟ ان کا کسی ایسے نبی کی شریعت کے مطابق مواخذہ نہیں کیا جائے گا جس کی اتباع کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کسی شخص کو صرف اسی وقت عذاب دیتا ہے جب اس پر ححجت قائم کردی گئی ہو اور اس نے اس کی مخالفت کی ہو اور نیک لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے اور انہیں بہت زیادہ فرحت و سرور حاصل ہوگا اور اس کے برعکس برے لوگوں کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے اور وہ غم زدہ ہوں گے وہ شدت حزن و غم اور ہلاکت کی وجہ سے اپنے اعمال ناموں کو پڑھنے پر قادر نہ ہوں گے۔
Top