Tafseer-e-Saadi - Al-Israa : 106
وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا
وَقُرْاٰنًا : اور قرآن فَرَقْنٰهُ : ہم نے جدا جدا کیا لِتَقْرَاَهٗ : تاکہ تم اسے پڑھو عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ عَلٰي مُكْثٍ : ٹھہر ٹھہر کر وَّنَزَّلْنٰهُ : اور ہم نے اسے نازل کیا تَنْزِيْلًا : آہستہ آہستہ
اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ہے۔
(آیت نمبر (106 یعنی ہم نے اس قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کیا ہے جو ہدایت اور گمراہی ‘ حق اور باطل کے درمیان تفریق کرتا ہے (لتقراہ علی الناس علی مکث) ” تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں “ تاکہ وہ اس کے معانی میں تدبر کریں اور اس میں سے اس کے مختلف علوم کا استخراج کریں۔ (و نزلنہ تنزیلا ) ” اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ہے۔ “ یعنی اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے ‘ ٹکڑوں میں تئیس (23) سال کے عرصہ میں نازل کیا ہے۔ (ولا یا تونک بمثل الا جئنک بالحق واحسن تفسیرا) (الفرقان (33/25:” اور وہ جب کبھی آپ کے پاس کوئی پچیدہ بات لے کر آئے تو ہم نے حق کے ساتھ اس کا جواب دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کو کھول دیا۔ “ پس جب حق واضح ہوجائے جس میں کسی بھی پہلو سے کوئی شک و شبہ نہیں (قل) (قل) تو ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے حق کو جھٹلایا اور اس سے منہ موڑا (امنو بہ او لا تومنو ا) ” تم اس کے ساتھ ایمان لاؤ یا نہ لاؤ “ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کوئی حاجت نہیں اور تم اللہ تعالیٰ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اس تکذیب کا نقصان تمہیں ہی پہنچے گا کیونکہ تمہارے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور بھی بندے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم نافع عطا کیا ہے۔ (اذا جتلی علیھم یخرون للا ذقان سجدا) ” جب پڑھا جاتا ہے ان پر تو وہ گرپڑتے ہیں تھوڑیوں پر سجدہ کرتے ہوئے “ یعنی اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس کے سامنے نہایت عاجزی سے سرافگندہ ہوتے ہیں۔ (و یقولون سبحن ربنا ) ” اور کہتے ہیں پاک ہے ہمارا رب “ وہ ان تمام صفات سے پاک اور منزہ ہے جو اس کے جلال کے لائق نہیں اور جو مشرکین نے ان کی طرف منسوب کر رکھی ہیں (ان کان وعد ربنا ) ” اور بیشک ہمارے رب کا وعدہ “ یعنی اس نے زندگی بعد موت اور اعمال کی جزا کا جو وعدہ کر رکھا ہے۔ (لمفعولا) ” ہونے والا ہے “ اس میں کوئی وعدہ خلافی ہے نہ اس میں کوئی شک ہے۔ (و یخرون للاذقان ) ” اور گرتے ہیں وہ ٹھوڑیوں پر “ یعنی منہ کے بل (یبکون و یزید ھم ) ” روتے ہوئے اور زیادہ کرتا ہے ان کو “ یعنی قرآن (خشوعا ) ” خشوع خضوع میں۔ “ یہ اہل کتاب کے ان مومنین کی مانند ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا اور وہ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں اور اس کے بعد ایمان لائے۔
Top