Tafseer-e-Saadi - Al-Hijr : 9
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
اِنَّا : بیشک نَحْنُ : ہم نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا الذِّكْرَ : یاد دہانی (قرآن) وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے لَحٰفِظُوْنَ : نگہبان
بیشک یہ (کتاب) نصیحت ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔
آیت 9 رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرنے والے کفار نے تمسخر اور استہزا کے طور پر کہا۔ (یایھا الذی نزل علیہ الذکر) ” اے وہ شخص کہ اترا ہے اس پر قرآن “ یعنی تیرے زعم کے مطابق (انک لمجنون) ” بیشک تو دیوانہ ہے “ کیونکہ تو سمجھتا ہے کہ محض تیرے کہنے پر ہم تیری پیروی کرنے لگ جائیں گے اور اس مذبہ کو چھوڑ دیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ (لوما تاتینا بالمآئکۃ) ” کیوں نہیں لے آتا تو ہمارے پاس فرشتوں کو “ جو اس چیز کی صداقت اور صحت کی گواہی دیں جو تو لے کر آیا ہے (ان کنت من الصدقین) ” اگر تو سچا ہے “ اور چونکہ تیری تائید کیلئے تیرے ساتھ فرشتے نہیں آئے اس لئے تو سچا نہیں ہے اور ان کا یہ کہنا سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی جہالت ہے۔ رہا اس کا ظلم ہون اتو یہ صاف ظاہر ہے کیونکہ معین معجزات کا مطالبہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بڑی جسارت اور محض تعنت (بےجا سختی) ہے حالانکہ ان معین معجزات کے بغیر بھی بہت سی نشانیوں کے ذریعے سے دلیل اور برہان کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے جو اس چیز کی صحت اور اس کے حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔ اور رہی جہالت، تو وہ اپنے مصالح اور نقصان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، پس فرشتوں کو نازل کرنے میں ان کے لئے کوئی بھلائین ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ جب فرشتے نازل کرتا ہے تو حق کے ساتھ نازل کرتا ہے اور اس کے بعد ان لوگوں کو کوئی مہلت نہیں دی جاتی جو حق کی پیروی نہیں کرتے۔ (وما کانوا اذا) ” اور اس وقت نہ ملے گی “ یعنی فرشتے کے نازل ہونے کے بعد اگر وہ ایمان نہ لائے۔۔۔ اور وہ ایمان نہیں لائیں گے (منظرین) ” ان کو مہلت “ یعنی ان کو مہلت نہیں دی جائے گی۔ فرشتوں کے نازل ہونے کا مطالبہ، انکی فوری ہلاکت اور تباہی کا باعث بن جائے گا۔ کیونکہ ایمان ان کے اختیار میں نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اگر ہم ان پر فرشتوں کو بھی نازل کردیتے۔ مردے ان سے ہم کلام ہوتے اور ہر چیز ان کے سامنے اکٹھی کردیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے الا یہ کہ اللہ چاہتا، مگر ان میں سے اکثر لوگ جاہل ہیں۔ “ اگر یہ اپنی بات میں سچے ہوتے تو قرآن عظیم کی یہ آیات ہی ان کے لئے کافی ہوتیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا : (انا نحن نزلنا الذکر) ” بیشک ہم نے اتاری ہے یہ نصیحت “ یعنی قرآن جس میں ہر چیز کا تذکرہ ہے مثلاً مسائل اور واضح دلائل وغیرہ اور جو کوئی نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس سے نصیحت حاصل کرسکتا ہے۔ (وانا لہ لحفظون) ” اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں “ یعنی اس کو نازل کرنے کی حالت میں ہر شیطان مردود کی چوری سے ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اس کو نازل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے قلب میں اور آپ کی امت کے قلوب میں ودیعت کردیا۔ نیز اس کے الفاظ کو تغیر و تبدل، کمی بیشی اور اس کے معانی کو ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ کردیا۔ تحریف کرنے والا جب کبھی اس کے معنی میں تحریف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو مقرر فرما دیتا ہے جو حق مبین کو واضح کردیتا ہے۔ قرآن کی حقانیت کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر سب سے بڑی نعمت ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی حفاظت یہ ہے کہ وہ اہل قرآن کو ان کے دشمنوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ ان پر کسی ایسے دشمن کو مسلط نہیں کرتا جو ان کو ہلاک کر ڈالے۔
Top