Ruh-ul-Quran - Nooh : 8
ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًاۙ
ثُمَّ : پھر اِنِّىْ : بیشک میں دَعَوْتُهُمْ : میں نے پکارا ان کو جِهَارًا : اعلانیہ
پھر میں نے ان کو بلایا برملا
ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُھُمْ جِھَارًا۔ ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَھُمْ وَاَسْرَرْتُ لَھُمْ اِسْرَارًا۔ (نوح : 9) (پھر میں نے ان کو بلایا برملا۔ پھر میں نے ان کو کھلم کھلا بھی سمجھایا اور چھپ کر چپکے چپکے بھی۔ ) سابقہ آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے مخالفانہ رویئے اور آپ کی دعوت کے جواب میں انتہائی تکبر و غرور کا اظہار دیکھ کر یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے انھیں دعوت دینا بند کردیا ہوگا۔ اور آپ اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ سر کھپانا، سر پھوڑنے کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیسا حوصلہ عطا فرمایا تھا کہ ایسی حوصلہ شکن صورتحال میں بھی آپ مایوس ہونے کی بجائے ولولہ تازہ لے کر اٹھتے ہیں اور ان کے رویئے سے شاکی ہونے کی بجائے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ میری دعوتی مساعی اور تبلیغی کاوشوں کے لیے دراصل ایک چیلنج ہے۔ اس لیے بجائے اپنے اوپر اضمحلال طاری کرنے کے آپ نے اپنے دعوت کے لب و لہجہ کو تیز تر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ نوا را تیز تر می کن، چوں اثر نغمہ کمیابی رہی ان کی مزاحمت اور مخالفت، ان کا گریز اور ان کا استکبار، تو یہ بھی میرے حوصلے کو بلند کرنے اور کوششوں کو تیز کرنے کی دعوت ہے۔ تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے فریضہ ٔ رسالت پر پیغمبر کی استقامت حضرت نوح (علیہ السلام) کہتے ہیں، ایسے مخالفانہ ماحول میں بھی میں نے ہمت ہارنے کی بجائے ہر طرح کے حالات میں بات کی۔ کہیں ڈنکے کی چوٹ بات کہنے کی ضرورت ہوئی تو وہاں میں نے بےدریغ ڈنکے کی چوٹ بات کہی تاکہ ہر طرح کے لوگ میری بات سن سکیں اور جہاں میں نے محسوس کیا کہ ان کے اندر اتر کر اور اعتماد میں لے کر بات سمجھانے کی ضرورت ہے تو وہاں میں نے یہ طریقہ بھی آزمایا۔ پیش نظر دراصل یہ تھا کہ وہ کسی طرح ہدایت کے راستے پر آجائیں اور اپنے انجام کو بہتر بنالیں۔
Top