Ruh-ul-Quran - Nooh : 5
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًاۙ
قَالَ رَبِّ : اس نے کہا اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نے دَعَوْتُ : میں نے پکارا قَوْمِيْ : اپنی قوم کو لَيْلًا وَّنَهَارًا : رات کو اور دن کو
حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کی، اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلاً وَّ نَھَارًا۔ فَلَمْ یَزِدْھُمْ دُعَـآئِ یْٓ اِلاَّ فِرَارًا۔ (نوح : 5، 6) (حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کی، اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا۔ مگر میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ ) حضرت نوح (علیہ السلام) کی عرضداشت سابقہ آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کا ایک حصہ نقل کیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کے بنیادی ارکان کیا تھے۔ اور آپ ( علیہ السلام) نے کس حکمت، محنت اور ہمدردی اور خیرخواہی سے اس کام کو آگے بڑھایا اور مسلسل سالہاسال تک اسی دھن میں لگے رہے جس کا مجموعی دورانیہ تقریباً 900 سال ہے۔ لیکن قوم نے اس کے جواب میں جو کچھ کیا اور جس طرح آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اس کا ذکر کرنے کی بجائے آپ نے زندگی کے آخری دنوں میں ایک عرضداشت پیش کی ہے جس کا ان آیات میں ذکر کیا جارہا ہے۔ اس میں نہ کسی مبالغے کا دخل ہے، نہ داستان سرائی کا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول اپنی قوم کے لیے عدالت بن کر آتے ہیں۔ ان کی زبان سے کبھی کوئی ایسی مبالغہ آمیز بات نہیں نکلتی جس کے ڈانڈے جھوٹ سے ملتے ہوں۔ یوں تو ہر پیغمبر نے اپنی قوم کو سمجھانے اور دین کی دعوت پیش کرنے میں شب و روز محنت کی۔ اور کہیں بھی کسی کمزوری کو پیدا نہیں ہونے دیا۔ لیکن حضرت نوح (علیہ السلام) کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے جتنی طویل مدت تک اپنی قوم کو جھنجھوڑا اور جگایا اس کی مثال کہیں اور ملنا ممکن نہیں۔ لیکن قوم نے اس بےمزد محنت اور نہایت مخلصانہ جانثاری کی قدر کرنے کی بجائے ایسا برا ردعمل دکھایا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا، مگر میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ یعنی جتنا ہی زیادہ میں نے ان کو پکارا وہ اتنا ہی زیادہ مجھ سے بھاگے۔ بظاہر سننے والا یہ سمجھتا ہے کہ آپ کی دعوت میں یقینا کوئی بات عقل و فطرت کے خلاف ہوگی یا وہ لوگ آپ کے خلوص اور راست بازی سے شاکی ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی پیغمبر بھی دنیا میں ایسا نہیں آیا کہ جس کی قوم نے اس کی دعوت یا اس کے خلوص پر کبھی شبے کا اظہار کیا ہو۔ ان کی دعوت کی معقولیت ہر شخص کو تسلیم تھی اور ہر شخص ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرتا تھا۔ ان کے رد عمل کی نامعقولیت اور ان کے ظالمانہ گریز کی وجہ دراصل یہ تھی کہ اس دعوت کے قبول کرنے سے قوم کے سربرآوردہ لوگوں کی خودساختہ طبقاتی مراعات پر چوٹ پڑتی تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ اس دعوت کے نتیجے میں انسانی مساوات کے جس اصول پر زور دیا جارہا ہے اس سے ہماری قوم کا ایک عام آدمی ہمارے برابر ہوجائے گا۔ اس سے ان کے استکبار پر ایک ایسی ضرب پڑتی تھی جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ پھر وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ ان کی نفسانی خواہشوں کے بروئے کار آنے کے اس میں کوئی امکانات نہیں۔ اس لیے عافیت اسی میں ہے آپ کی دعوت سے گریز کا راستہ اختیار کیا جائے۔
Top