بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ہم نے نوح (u کو) ان کی قوم کی طرف رسول بنا کے بھیجا، کہ اپنی قوم کو خبردار کردیں قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے
اِنَّـآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ اَنْ اَنْذِرْقَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّـاْ تِیَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْم۔ (نوح : 1) (ہم نے نوح (u کو) ان کی قوم کی طرف رسول بنا کے بھیجا، کہ اپنی قوم کو خبردار کردیں قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے۔ ) پیغمبر کی بعثت کا مقصد حضرت نوح (علیہ السلام) بعض روایات کے مطابق اولادِ آدم کی اصلاح کے لیے مبعوث ہونے والے پہلے صاحب شریعت رسول ہیں۔ دنیا کی اکثر قومیں ان کے نام سے واقف ہیں۔ دنیا پر طوفانِ نوح کے نام سے جو تباہی آئی اس کا تذکرہ بھی تمام قوموں میں پایا جاتا ہے۔ اہل مکہ بھی آپ ( علیہ السلام) کو رسول کی حیثیت سے جانتے تھے۔ اس لیے ان کے سامنے حضرت نوح (علیہ السلام) کی سرگزشت ایک رسول کی حیثیت سے بیان فرمائی گئی ہے تاکہ اس سرگزشت کے آئینہ میں وہ اگر جاننے کی کوشش کریں تو وہ جان سکیں کہ اللہ تعالیٰ کا رسول جب کسی قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے تو اس کی بعثت کی غرض و غائت کیا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے اس کا مقام اور کام کیا ہوتا ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تھا یعنی ہم نے ان کو رسالت کے منصب پر فائز کیا تھا اور ان کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی گئی تھی کہ آپ ( علیہ السلام) کی قوم جو فسادِ عقیدہ، فسادِ عمل اور زندگی کے تمام معاملات میں فسادِ عمومی کے اعتبار سے اس حالت کو پہنچ گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ان کے سروں پر تلا کھڑا ہے کیونکہ سیرت و کردار کی ایسی عمومی خرابی کے ظہور کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آجایا کرتا ہے۔ لیکن ہمارا قانون یہ ہے کہ جب پہلے آنے والے رسولوں کی دعوت و اصلاح کے اثرات دھیمے پڑجاتے ہیں اور قوم مجموعی طور پر ہمہ جہت فساد کا شکار ہوجاتی ہے تو ہم اس پر عذاب بھیجنے سے پہلے اسے خبردار کرنے کے لیے اپنا رسول بھیجتے ہیں تاکہ وہ انھیں آنے والے خطرے سے اچھی طرح باخبر کردے۔ اور اپنی تبلیغی مساعی سے ایک ایک پر حجت تمام کردے تاکہ کل کو جب وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں کسی نے انذار نہیں کیا تھا ورنہ ہم اپنی اصلاح کرلیتے۔ چناچہ اسی اصول کے تحت حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہم نے انذار کرنے کے لیے بھیجا تھا تاکہ ان کی قوم بیخبر ی میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار نہ ہوجائے۔
Top