Ruh-ul-Quran - Nooh : 10
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ
فَقُلْتُ : پھر میں نے کہا اسْتَغْفِرُوْا : بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنے رب سے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ غَفَّارًا : بخشنے والا ہے
پھر میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے
فَـقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّـکُمْ ط اِنَّـہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُّرْسِلِ السَّمَـآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا۔ وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّـکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّـکُمْ اَنْھٰرًا۔ (نوح : 10 تا 12) (پھر میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ اور مال و اولاد سے تمہاری مدد کرے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ ) نرمی اور حکمت سے دعوت کی مثال یہ دلوں میں اتر کر اور نہایت اعتماد میں لے کر بات کہنے کی مثال ہے کہ میں نے ان سے کہا کہ تم آج کل اپنے حالات کی گرفت میں ہو، تمہارے کاروبار مندے کا شکار ہیں، تمہاری زراعت اجڑتی جارہی ہے، بارشیں ہیں کہ وقت پر ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ تم اگر اپنے حالات بدلنا چاہتے ہو تو اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو، یعنی ایمان لائو، میری پیروی کرو اور اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائو۔ وہ بہت بخشنے والا ہے۔ تمہارے زندگی بھر کے گناہ معاف کردے گا۔ تم پر مسلسل موسلادھار بارشیں نازل فرمائے گا، اس کی مہربانیوں کی کوئی انتہا نہیں، وہ تمہیں مال و دولت سے بھی نوازے گا اور تمہاری اولاد میں بھی برکت دے گا، تمہارے باغ بھی پھلیں پھولیں گے اور تمہارے لیے نہریں رواں کردے گا۔ اس طرح سے ان کو سرسبزی و شادابی اور خوشحالی و فارغ البالی کا راستہ بھی دکھایا تاکہ وہ اگر عذاب سے ڈر کر راہ راست پر آنے کے لیے تیار نہیں تو اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے ہی اللہ تعالیٰ کے آستانے پر جھک جائیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے دعوتی کلمات سے دو حقیقتوں کی طرف رہنمائی ملتی ہے اور قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی انسان کی زندگی کو تنگ کردیتی ہے اور ایمان وتقویٰ اور احکامِ الٰہی کی اطاعت کا طریقہ صرف آخرت ہی میں نافع نہیں بلکہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سزاوار بناتا ہے۔ چناچہ سورة طٰہٰ کی آیت 124 میں قرآن کریم کے حوالے سے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص میرے ذکر ( قرآن کریم) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ اسی طرح قرآن کریم کی کئی آیات میں تورات، انجیل اور دوسری آسمانی کتابوں کو قائم کرنے پر دنیا میں رزق کے برسنے اور نیچے سے ابلنے کا مژدہ سنایا گیا ہے اور کہیں فرمایا گیا ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قریش کے لوگوں سے فرمایا کہ میں یہ ایک کلمہ لے کر آیا ہوں، اگر تم اسے مان لو تو اس سے تم عرب کے مالک ہوجاؤ گے اور عجم پر حکمرانی کرو گے۔ دوسری بات ہمیں اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ بارشیں گناہوں کی کثرت سے رکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کرنے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ لوگ گناہ چھوڑ دیں اور استغفار کریں۔ حضرت عمر فاروق ( رض) نے اسی بات کو سمجھتے ہوئے ایک مرتبہ نماز استـثـقاء میں صرف استغفار پر کفایت فرمائی۔ لوگوں نے عرض کیا، امیرالمومنین آپ نے بارش کے لیے تو دعا کی ہی نہیں، فرمایا : میں نے آسمان کے ان دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے اور پھر سورة نوح کی یہ آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔ (ابنِ جریر و ابن کثیر) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی رحمت کی کلید استغفار ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حسن بصری کی مجلس میں ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی۔ انھوں نے کہا اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔ دوسرے شخص نے تنگدستی کی شکایت کی، تیسرے نے کہا میرے یہاں اولاد نہیں ہوتی، چوتھے نے کہا میری زمین کی پیداوار کم ہورہی ہے۔ ہر ایک کو وہ یہی جواب دیتے چلے گئے کہ استغفار کرو۔ لوگوں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتا رہے ہو۔ انھوں نے جواب میں سورة نوح کی یہ آیت سنا دی۔ (کشاف)
Top